قاضی صاحب… بات کہیں کی کہیں پہنچ گئی اورآپ اصل مضمون سے بہت دور چلے گئے۔ ذکر تو مرزے کے فریبوںکاتھا۔
نووارد… قاضی صاحب میں اس کے فریب کہاںتک بیان کروں۔اس کے تو بال بال میں فریب تھا۔ مچھلی پکڑنے کے لئے کنڈی پر جو خون یا گوشت یاآٹا یا کیچوا لگایا جاتا ہے۔ اس کو آپ کو معلوم ہے کہ انگریزی میں بیٹ کہتے ہیں۔ مرزے نے جن لوگوں کو بیٹ سے اپنی کنڈی میں پھنسایا وہ یہ تھی کہ ’’میرے وقت میں تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیںگی اور ایک ہی مذہب اسلام ہو جائے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۳،خزائن ج۲۳ص۹۱)مسلمانوں نے اسی خوشی میں آکر آپ کی طرف دوڑنا اورآپ سے سرمنڈانا شروع کر دیا۔ آپ ان کی دولت سے اپنا گھر بھر کر اور خوب عیش و عشرت کرکے ان جہاں سے چل دیئے۔ آپ کی بلا سے ہندو اور عیسائی مسلمان ہو جائیں۔ یا مسلمان ہندو اورعیسائی بن جائیں۔ قاضی صاحب آپ نے مداری کا تماشہ تو بہت دفعہ دیکھا ہوگا۔
قاضی صاحب… جی ہاں بہت دفعہ۔
نووارد… کبھی اس کی چالاکیوں پر آپ نے غور کیا؟
قاضی صاحب… کیا تو ہے۔ مگرمیں کبھی ان کی تہہ کو نہیں پہنچا۔
نووارد… اچھا تو مجھ سے سنئے!اورمقابلہ کیجئے۔ جب وہ کسی چورستے یا میدان میں اپنا تماشہ کرکے لوگوں سے کچھ وصول کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلے ڈگڈگی بجاتا ہے۔ یعنی ’’آؤ لوگو یہیں نور خدا پاؤ گے۔‘‘کے اشتہار تقسیم کرتا ہے۔ جب لوگ آنے لگ جاتے ہیں۔ تو ان کو تماشے کے شروع کرنے تک خوش رکھنے کے لئے بنسی بجانی شروع کردیتا ہے ’’میں آنحضرتؐ کا بول بالا کرنے اور اسلام کی شوکت ظاہر کرنے آیاہوں۔‘‘پھر ایک کپڑے کا بت سا بنا ہوا تھیلے میں سے نکال کر میدان میں پھینک دیتا ہے اور اس سے غرض اس کی یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اور کرتب میرا پسند نہ آئے تو تماشائی چلے نہ جائیں۔ بلکہ اس انتظار میں کھڑے رہیںکہ دیکھیں اس گڈے سے یہ کیابناتاہے؟ اس سے جو کچھ بھی اس نے بنایا وہ واقعی قابل تعریف کرتب ہوگا۔ ’’وہ گڈا یہی تھا کہ میرے زمانہ میں کل مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘ اور جس طرح مداری صاحب چند معمولی کرتب دکھا کر پیسے طلب کرکے اس گڈے کو اسی طرح واپس تھیلے میں ڈال کر چل دیتے ہیں۔اسی طرح مرزاقادیانی بھی اپنے مریدوں کو کل دنیا کے لوگوں کو مسلمان ہوتے دیکھنے کے انتظار میں چھوڑ کر اس جہان سے تشریف لے گئے۔ اب کرلو ان کا جو کرنا ہے۔ کیا کر سکتے ہو؟بڑے بڑے بینک بیٹھ گئے اور ان کے دیوالئے نکل گئے۔ مگر مرزا قادیانی کے بینک کو روز افزون ترقی ہے۔