بابوصاحب مرزے کی اس ساری بکواس کا کیا مفہوم یہ نہیں کہ:
۱… مریم اپنے منسوب یوسف نجار کے ساتھ قبل از نکاح اختلاط کرتی تھی اوراس کے ساتھ گھر سے باہر چکر لگایا کرتی تھی اور قوم افغان میں ایسے اختلاطوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر لڑکیاں قبل از نکاح حاملہ پائی گئیں۔
۲… یہودیوں میں بموجب شریعت موسوی کے ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی جائز نہ تھی۔ اس لئے بھی جائز نہ ہوئی۔
۳… مریم بتول کا یہ ناجائز نکاح یوسف سے باز رہنے پر بزرگان قوم اس لئے مجبور ہوئے او ر مریم اس نکاح پر اس لئے راضی ہوگئی کہ وہ حاملہ پائی گئی۔ حاملہ کس سے ہوئی یوسف سے۔ کیونکہ یوسف کے تخم سے اورمریم کے بطن سے جو دو لڑکیاں پیدا ہوئیں وہ حضرت عیسیٰ کی حقیقی بہنیں تھیں۔ حقیقی بہن بھائی انہیں کو کہتے ہیںجو ایک باپ کے نطفہ سے اور ایک ماں کے پیٹ سے ہوں۔ اگر ماں ایک ہو اور باپ مختلف ہوں تو ان کو اخیافی کہتے ہیں اور گر باپ ایک ہو اورمائیں جدا جدا ہوں تو ان کو علاتی کہتے ہیں۔
اب اس مکار کا مکر دیکھئے کہ فلانے کی عزت کرتاہوں۔ میں ڈھمکے کی عزت کرتاہوں کہ پیرائے میں کیا کہہ گیا کہ توبہ نعوذ باﷲ مریم زانیہ تھیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ولد الزنا ۔ اسی غرض سے اس نے (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۹،خزائن ج۱۷ص۲۹۷)پرآیت’’والتی احصنت فوجھا‘‘ کے معنی یوں کئے ہیں کہ ’’مریم نے جب اپنے اندام نہانی کو نامحرم سے محفوظ رکھا۔‘‘
بابوصاحب یہ انگریزوں کی ہی بادشاہی ہے۔ جس نے مذہبی امور میں لوگوں کو اس قدرآزادی دے رکھی ہے۔ اگر اسلامی بادشاہی ہوتی تو خدا جانے اس کو کیسے کیسے عذابوں سے مارتے؟
قاضی صاحب جہاں قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ یہود کی نسبت فرماتا ہے کہ: ’’وقولہم علی مریم بھتاناعظیما‘‘اور ہم نے یہودیوں پر اس وجہ سے بھی لعنت بھیجی کہ انہوں نے مریم پر بہتان لگایا یعنی زانیہ کہا۔ وہاں یہ بھی دیکھئے کہ اﷲ تعالیٰ مریم صدیقہ کے شکم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کیونکر بیان کرتاہے؟
پارہ۳رکوع۱۳ترجمہ:’’اور جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ اے مریم صرف خدا کے حکم سے ایک لڑکا تمہارے بطن سے ہوگا سو خدا تم کو اپنے (اس) حکم کی خوش خبری دیتا ہے(اور) اس کا نام ہوگا عیسیٰ مسیح ابن مریم دنیا اورآخرت (دونوں) میں رودار اور(خدا کے)مقرب بندوں