نہیں، بلکہ صرف پیداہونا ہے اور آیت میں’’رافعک الیّ‘‘یعنی اپنی طرف اٹھانے والا، سے واقعی اگر یہ مراد ہوتی کہ تجھ کو جسم سمیت اپنی طرف اٹھانے ہوں۔ تو میرے لئے وہی الفاظ کیوں استعمال ہوتے۔کیونکہ میں تو آسمان کی طرف اٹھایا نہیں گیا۔ پس رافع الیّ کے معنے یہی ہیں کہ میں تجھے عزت دوںگا۔
نووارد… قاضی صاحب شاباش شاباش!جزاک اﷲ آج میں آپ کے دماغ کا قائل ہوگیا۔
قاضی صاحب… اورمیں مرزے کے دماغ کا۔
بابوصاحب… اورمیں مولوی صاحب کے دماغ کا۔
نووارد… بابوصاحب!میرے دماغ کی تعریف نہ کیجئے۔ میرے خیال میں مرزے نے خود بیان کر دیا ہے کہ رفع الیہ کے معنے اگر جسم سمیت آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے ہوتے تو میرے لئے یہ آیت نہ اترتی۔ ہاں میں نے دوسرے الہام سے ایک نتیجہ نکالا ہے اور وہ یہ کہ خدا عجمی ہے۔ ’’ض‘‘ کی جگہ’’د‘‘ بولتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ قاضیاں نہیں کہہ سکتے وہ قادیان۱؎ کہتے ہیں اور اس لئے یہ خدا قرآن اتارنے والا خدا نہیں اورمرزا مجدد نہیں۔کیونکہ مرور زمانہ سے جو خرابی اس کے گاؤں کے نام میں پڑ گئی تھی۔ اس کی اس نے تجدید واصلاح نہ کی۔ بلکہ اس غلطی سے فائدہ اٹھاکر ۱۳۰۰ء نکالا۔یعنی قادیاں سے بجائے قاضیاں کے۔
۱؎ مرزا (ستارہ قیصرہ ص۶،خزائن ج۱۵ص۱۱۸،۱۱۹) پر ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو لکھتا ہے۔ ’’سو یہ مسیح موعود جو دنیا میں آیا ہے۔ تیرے ہی وجود کی برکت اور دلی نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا نتیجہ ہے۔ خدا نے تیرے عہد سلطنت میں دنیا کے درد مندوں کو یاد کیا اور آسمان سے اپنے مسیح کو بھیجا اور وہ تیرے ہی ملک میں اور تیری ہی حدود میں پیدا ہوا تاکہ دنیا کے لئے یہ ایک گواہی ہو کہ تیری زمین کے سلسلہ عدل نے آسمان سے سلسلہ عدل کو اپنی طرف کھینچا اور تیرے رحم کے سلسلہ نے آسمان پر ایک رحم کا سلسلہ بپا کیا اور چونکہ اس مسیح کا پیدا ہونا حق اور باطل کی تفریق کے لئے دنیا پر ایک آخری حکم ہے۔ جس کی رو سے مسیح موعود حکم کہلاتا ہے۔ اس لئے ناصرہ کی طرح جس میں تازگی اور سرسبزی کے زمانہ کی طرف اشارہ تھا۔اس مسیح کے گاؤں کا نام اسلام پور قاضی ماجھی رکھا گیا۔ قاضی کے لفظ سے خدا کے اس آخری حکم کی طرف اشارہ ہو جس سے برگزیدوں کو دائمی فضل کی بشارت ملتی رہے اور تامسیح موعود کا نام جو حکم ہے۔ اس کی طرف بھی ایک لطیف ایما ہو اور اسلام پور قاضی ماجھی اس وقت اس گاؤں کانام رکھا گیا تھا۔ جبکہ بابربادشاہ کے عہد میں اس ملک ماجھے کا ایک بڑاعلاقہ حکومت کے طور پر میرے بزرگوں کو ملا تھا اورپھر رفتہ رفتہ خود مختارریاست بن گئی اور پھرکثرت استعمال سے قاضی کا لفظ قادی سے بدل گیا اور پھر اوربھی تغیر پاکر قادیان ہوگیا۔ غرض ناصرہ اور اسلام پور قاضی کالفظ ایک بڑے پر معنی نام ہیں۔ جو ایک ان میں سے روحانی سرسبزی پردلالت کرتاہے اور دوسرا روحانی فیصلہ پر جو مسیح موعود کا کام ہے۔‘‘