میں نے اپنا الہام یا تین من کل فج عمیق اتنے سال پہلے اورایسے زمانے میں درج کیا ہے جب کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا۔کیاانسان کی طاقت ہے کہ ایسی پیشین گوئی کر سکے۔بابوصاحب دیکھئے یہ فقرہ کہ انسان کی طاقت ہے کہ ایسی پیشین گوئی کرسکے۔کیسا مکروفریب اورجھوٹ سے بھرا ہوا ہے۔ جس شخص کا یہ ارادہ ہو کہ ساٹھ ستر اسی نوے ہزار اشتہار چھپواکر چار دانگ عالم میں مشتہر کرے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ میری دعا قبول ہوتی ہے۔ میں آنے والا مسیح ہوں۔ مسلمانو آؤ کہ یہاں نور خدا برس رہا ہے۔ اس کے لئے اس قسم کی پیشین گوئی کسی کتاب میں لکھ رکھنی کہ لوگ دور دور سے تیری طرف آئیںگے۔ کچھ مشکل تھی؟
کیا ایسے اشتہار دیکھ کر مسلمانوں کوبغیر قادیاں آئے صبرآتا؟ کسی بندہ خدا نے اپنے گھوڑے کا سرپچھاڑی کی طرف اورپٹھاتھاں کی طرف کرکے باندھ دیا تو خلقت اس کے دیکھنے کے لئے بھی جمع ہوگئی تھی اور یہاں تو خداکے نور برسنے اور استجابت دعا کے اشتہار تھے۔ جس نے ہندوستان پنجاب میں گھر گھر مسلمانوں کی گردن میں کسی نہ کسی پیر کی رسی ڈال رکھی ہے۔ ان کو اگر سارے پیروں سے زیادہ خدا کا مقرب اورمستجاب الدعوات کہیں سنائی دے۔ تو کیا وہ اتنا بھی نہیںکریں گے کہ ایک دفعہ اسے دیکھ تولیں کہ سچا ہے یا جھوٹا۔
کیا زمانہ پکار پکار کر نہیں کہہ رہا کہ تجارت کا گر اشتہار ہیں؟ پھر جس کے اشتہار سب سے زیادہ اس کی تجارت سب سے زیادہ۔ بابوصاحب کہتے ہیں ایک بادشاہ پر غنیم نے چڑھائی کی۔ اس نے اپنے جوتشی کو بلاکر کہا کہ بتاؤ ہماری فتح ہوگی یا شکست؟ جواب تحریر دو اور اگر وہ غلط ثابت ہوا تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔ جوتشی جواب کے لئے مہلت مانگ کر گھرآیا اور بڑے فکر میں چار پائی پر لیٹ گیا۔ بیٹی نے باپ کو متفکر پاکر سبب پوچھا تو اس نے معاملہ سنا دیا۔ بیٹی نے کہا بابا یہ تو کچھ بات ہی نہیں۔تم ایک ذرہ فکر مت کرو۔بادشاہ سلامت کو لکھ دو کہ تیری فتح ہوگی۔ اگر فتح بادشاہ کی ہوگئی۔ تو تمہارا اعزاز بڑھ جائے گی اوراس کی شکست ہو گئی تو کون ہوگا جوتمہاری گردن اڑائے گا؟
بابوصاحب کیا مرزا بھی یہی چال نہیں چلا؟ اور اگر مرزا قادیانی اس پیشین گوئی کو اس لئے انسان کی طاقت سے باہر سمجھتا ہے کہ اگر یہ صرف دو پہلو رکھنے والی پیشین گوئی پوری نہ ہوتی۔ تو کوئی مرزے کو پکڑ کر پھانسی دے دیتا۔تو میں پوچھتا ہوںکہ بعینہ اسی قسم کی دوسری پیشین گوئی پوری نہ ہونے پر مرزے کو کس نے پھانسی دے دیا؟
قاضی صاحب… وہ کون سی؟