طرف لوٹا لاؤں گا۔ یہ بات تیری رب کی طرف سے سچ ہے۔ پس شک کرنے والوں میں سے مت ہو اور ہم اس کو صرف تھوڑی سی ڈھیل دیںگے۔ان سے کہہ دے کہ وقت مقررہ کا تم بھی انتظار کرواورمیں بھی کرتاہوں۔اتنا کہہ کر کتاب بند کر کے واپس دے دی اوربابو صاحب سے یوں گویا ہوئے۔ یہ محمدی بیگم کے خاوند کی موت کا الہام اگر خدانخواستہ سچا بھی ثابت ہو جاتا۔ تب بھی میں اس کی تعریف نہ کرتا۔ کیونکہ اس کی بندش اور الفاظ مرزے کے اپنے نہیں قرآنی الفاظ ہیں۔
بابوصاحب… قاضی صاحب اس بحث کو جانے دیجئے۔ یہ فرقہ اناث جس بات پر اڑ جائے اس سے باز نہیں آیاکرتا۔راج ہٹ بالک ہٹ تریاہٹ مشہور مثل ہے۔
قاضی صاحب… نہ صاحب میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ جو کچھ کہہ رہی ہیں۔ اس کا ثبوت دے رہی ہیں۔مگر مولانا آپ کیوں گنگے کاگڑ کھائے بیٹھے ہیں۔
نووارد… بھئی مجھ سے پوچھتے ہو تو میں تو قسم کھاکر بھی یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ یہ الہام فرمائشی ہے۔ کسی خاص موقعہ پر والدہ بشیر نے کہا ہوگا کہ آپ تو سب کچھ بن چکے۔ میرے پیٹ سے بھی تو کسی کو کچھ بناؤ۔ اس پر آپ قلم دوات کاغذ لے کر بیٹھ گئے اور بیوی کو خوش کرنے کے لئے ایک طومار باندھ دیا۔
گاموں… جی مولوی ہوراں سچ آکھیا اے۔اہ گل میرے دل نوں لگی اے۔
بابوصاحب… بڑے زور سے خندہ کرکے مولوی صاحب مرزے کی تہہ کو بہت لوگ پہنچے ہوں گے۔ مگر جیسا کہ آپ نے اسے پہچانا ہے۔کم کسی نے پہچانا ہوگا۔
نووارد… حضرت میرا یہ دعویٰ تو نہیں مگر اگر آپ کا خیال صحیح ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیگر علمائے دین کو جنہوں نے مرزے کے لٹریچر کو پڑھا اورمرزے کے خلاف قلم اٹھایا۔دینی و دنیوی اور مشاغل بہت تھے اوربندہ کا صرف ایک ہی شغل رہا اور دوسری بات ہے کہ ٹھگ کو جیسا ٹھگ پہچانے گا۔ نیک آدمی نہیں پہچان سکتا ۔ میں نہایت درد رنج اور افسوس سے دیکھتا ہوں کہ مرزے کی باتوں میں زیادہ تر وہی لوگ آئے جو نہایت نیک او ر سیدھے تھے۔ میری عمر مرزائیوں میں گزر گئی۔ ان کی طرف سے نیز میرے اپنے بڑے بھائی کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ میں کم از کم اس کو ایک اچھا آدمی مانوں۔ مگر چونکہ میں سمجھ چکاتھا کہ وہ ایک ٹھگ ہے۔ اسلامی لباس میں اس نے ٹھگی کا کارخانہ کھولا ہواہے۔ میرے اس یقین کو کوئی متزلزل نہ کرسکا۔بابوصاحب مجھے اپنے درویشوں اور گدی نشینوں کی سادگی اور حد سے متجاوز حسن ظن پررونا آتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ فرقہ نشو ونما پاگیا۔یعنی جب کسی مرد مسلمان نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کیا فرماتے ہیں؟