بادشاہ سلامت آپ جو ہر روز شکار کرتے ہیں۔ اس میں آپ کو بھی دوڑ و دھوپ کی تکلیف ہوتی ہے اور ہم بھی اطمینان سے چل پھر نہیں سکتے۔ آپ ہم سے اپنے کھانے کے لئے ایک جانور ہر روز لے لیاکریں اورشکار نہ کیاکریں۔ شیر نے یہ بات منظور کرلی۔ ایک دن جب خرگوش کی نوبت آئی۔ تو وہ شیر کے پاس بہت دیر لگاکر گیا۔ جب شیر کے پاس پہنچا۔ تو شیر اس پر بہت ناراض ہوا کہ اتنی دیر لگاکر کیوں آیا؟ اس نے کہا بادشاہ سلامت!اس جنگل میں ایک اور شیر آگیا ہے۔ آپ کے واسطے جو راشن بھیجا گیاتھا۔ وہ اس نے کھالیا۔ اب میں دوسرا جانور آپ کے لئے لایاہوں۔ شیر یہ سن کر طیش میں آگیا۔ کہ کیا بکتا ہے۔ اس جنگل میں میرے سوا کوئی اور بھی پیداہواگیا۔ چل بتاکہاں ہے؟وہ اسے ایک کنویں پر لے گیا اورکہا کہ اس میں رہتا ہے۔ شیر نے جھانک کر دیکھا تو اپنی شکل نظرآئی۔یہ غرایا توکنویں والا بھی غرایا۔ مطلب یہ کہ شیرطیش میں آکرکنویں میں کود پڑا اور جنگلی جانوراس کی دستبرد سے چھوٹ ہوگئے۔
مرزا چونکہ دہریہ تھا۔ وہ الہام کا قائل ہی نہ تھا۔ اس لئے ڈاکٹر عبدالحکیم کے الہامات کو بھی اس نے اپنے الہاموں کی طرح جھوٹے اور بناوٹی سمجھا اورحقیقت الوحی لکھ ماری کہ تھرڈ کلاس کا ملہم ہوکر مجھ فسٹ کلاس ملہم کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس فضول کام کی جگہ اگرمرزا حج کرآتا۔ تو بہت اچھا تھا۔ خدا وعدہ کر چکا تھا کہ میں تیری ساری مرادیں پوری کروںگا۔ مرزا کا حج کے لئے تھوڑا سا خواہش کرنا بھی کافی ہو جاتا۔ بابوصاحب آج میں آپ کو وہ ذریعے سناتاہوں۔ جن سے مرزا اپنی معلومات اخذ کرتا تھا۔
۱… ’’خداتعالیٰ کے پاس مکالمہ سے قریباً ہر روز میں مشرف ہوتاہوں۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۱۸، خزائن ج۲۰ص۳۵۱)
۲… ’’میں نے کئی دفعہ ـآنحضرتؐ کو اسی بیداری میں دیکھا ہے۔باتیں کی ہیں۔ مسائل پوچھے ہیں۔‘‘ (جنگ مقدس ص۱۲۹، خزائن ج۶ص۲۲۳)
۳… ’’اس بارہ میں خود یہ عاجز صاحب تجربہ ہے کہ بارہا عالم بیداری میں بعض مقدس لوگ نظر آئے ہیں۔‘‘ (ازالہ حصہ دوم ص۴۷۴، خزائن ج۳ص۳۵۴)
۴… ’’مجھے قسم ہے اس ذات کی کہ بارہا عالم کشف میں میں نے ملائکہ کو دیکھا ہے۔ان سے بعض علوم اخذ کئے ہیں اور ان سے گزشتہ یا آنے والی خبریں معلوم کی ہیں۔ جو مطابق واقعہ تھیں۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۱۸۲،۱۸۳ ،خزائن ج۵ص۱۸۲،۱۸۳)خدا کی قسم کا بھی خیال رہے۔
۵… ’’مکاشفات میں بعض گزشتہ نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں اورجو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس