یعنی صادقوں کا یہی نشان تو ہوتا ہے کہ جس کے وہ عاشق ہوتے ہیں۔ اس کے لئے سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں۔
براہ یار عزیز از بلانہ پرہیزد
اگرچہ دررہ آں یار اژدہا باشد
سچا عاشق بلا سے نہیں ڈرتا۔خواہ اس کے معشوق کے رستہ میں اژدھا ہی کیوں نہ بیٹھا ہو؟
یانبی اﷲ نثار روئے محبوب توام
وقف راہت کردہ ام ایں سرکہ بددوش است بار
(درثمین فارسی ص۹۰)
یعنی اے اﷲ کے نبی میں تیرے پیارے منہ کے قربان جاؤں۔ میں نے اپنا سر جس کا بوجھ معلوم ہورہا ہے۔ تیرے رستہ پر قربان کردیاہے۔
ہمچنیں عشقم بروئے مصطفی
دل پرچوں مرغ سوئے مصطفی
(درثمین فارسی ص۱۱۵)
یعنی میں آنحضرتؐ کے چہرہ مبارک کا ایسا عاشق ہوں کہ آپ کی طرف میرا دل مرغ کی طرح اڑا جاتاہے۔
مے پریدم سوئے کوئے اومدام
من اگرمیداشتم بال وپرے
(درثمین فارسی ص۵)
آہ اگر خدامیرے بازوؤں میںپر پیداکردیتا تو خلقت دیکھی کہ میں ہمیشہ اڑ کر رسول اﷲ کے کوچہ میں جاتا۔
مولوی محمدعلی صاحب امیرلاہوری پارٹی سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی ان اشعار کو ممتحن کیمیاکے دفتر میں لے جاکر ان کا امتحان کرائیں اور ہمیں بتائیں کہ مجدد صاحب کے ان اشعار میں جھوٹ کا من ہے یا صداقت کی رتی؟
دولت سے مجددصاحب کا گھر اٹا ہوا۔صحت کا یہ حال کہ اولاد کے الہام ہورہے ہیں۔ ریل دروازہ پر ہے۔ رسول اﷲ کے کوچہ میں جانے کے عشق سے سینہ پر،سرکٹوانے کا بھوت سر پرسوار۔بہادری کا یہ حال کہ اژدہے سے بھی نہیں ڈرتے۔ موت قریب ہونے کی وحی مقدس نازل