بابو صاحب… مولوی صاحب چھوڑئیے اس قصہ کو۔
بابوصاحب… میں تو ایک جاہل آدمی تھا۔ مگر میں دیکھتاہوں کہ جو لوگ عالم فاضل ہونے کے مدعی ہیں۔ ان کی تمام باتیں مان رہے ہیں۔
نووارد… بابوصاحب عیسائی اور اہل ہنود اسلام پر ہمیشہ یہ حملہ کرتے رہتے ہیں کہ یہ عیاشی کا مذہب ہے۔ اس نے چارعورتیں ایک وقت میں جائز کردیں۔ بزرگان دین اس کا یہ جواب دیتے رہے کہ اسلام یہ حکم نہیں دیتاکہ تم ضرور چار عورتیں کرو۔ہاں اگر ضرورت پڑے۔ مثلاً پہلی بیوی دائم المرض ہو۔ کوڑ ھی ہوجائے۔ بانجھ ثابت ہو تو تم دوسری اورتیسری اور چوتھی بھی کر سکتے ہو۔ مگراس شرط پر کہ تم سب سے یکساں سلوک کرو۔یہ شرط ایسی کڑی ہے کہ ایک سے زیادہ جورو کرنے کو قریباً قریباًناممکن کردیتی ہے۔مگر اس شخص نے بلاضرورت ایک سے زیادہ شادیاں کرکے اور ایک بیوی کو معلق رکھ کر عملاً ثابت کردکھایا کہ اسلام :
زن نوکن اے دوست ہر نوبہار
کہ تقویم پارینہ ناید بکار
کی تعلیم دیتا ہے اور قرآن صبح کے وقت ہل ہل کے پڑھ لینے کے واسطے بنا ہے۔ نہ کہ اس پر عمل کرنے کے لئے ۔بابوصاحب،قاضی صاحب کا ریمارک آپ نے دررثمین کی نسبت سنا۔ میں بھی اس کی نسبت کچھ عرض کرنا چاہتاہوں۔ اس کتاب کو مرزائی جیب میں رکھتے ہیں اور جہاں انہیں کوئی سادہ لوح مسلمان نظر آیا یہ اسے جیب سے نکال کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اورلوگ اس کے اشعار سن کر لٹو ہو جاتے ہیں اور یہ نہ سمجھ کر کہ یہ صرف ہاتھی کے دانت ہیں اورمحض لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لینے کے لئے گھڑے گئے ہیں۔ مرزے کے معتقد ہو جاتے ہیں۔ مثلاً دیکھئے:
یانبی اﷲ فدائے برسر موئے توام
وقف راہ توکنم گرجان دہندم صد ہزار
(درثمین فارسی ص۹۰)
یعنی اے اﷲ کے نبی میں تیرے ایک ایک بال کے صدقے،اگر مجھے خدا لاکھ جانیں بھی دے تو میں تیرے راستہ میں قربان کردوں۔
دل اگر خوں نیست از بہت چہ چیز است آں وے
ورنثار تونگر دوجاں کجا آمد بکار
(درثمین فارسی ص۹۰)