بابوصاحب… بیشک!
نووارد… توگویا آنحضرتؐ کو بخوبی معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ایک معمہ وار پیشین گوئی نے تمام بنی اسرائیل کو کفر اورضلالت میں غرق کردیا۔
بابوصاحب… اس میں کیا شک باقی رہا؟
نووارد… اچھا تو مرزاہم سے یہ منوانا چاہتا ہے اوراس کے مرید مان گئے ہیں کہ آنحضرتؐ باوجود اس علم کے اسی پیغمبرؑ کی دوبارہ آمد کی پیشین گوئی اس طرح کرتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرقی منارہ پر اترے گا اور اس وقت دو زعفرانی چادروں میں لپٹا ہوگا اور اس سے مطلب آنحضرتؐ کا اپنی امت کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ غلام احمد ولد غلام مرتضیٰ قادیا ن میں پیدا ہوگا۔ تو ذیابیطس اور دوران سر کی اسے بیماری ہوگی۔ بابوصاحب آنحضرتؐ کا آنے والے مسیح کا نام بیان کرنا۔ ولدیت بیان کرنا، جائے نزول بیان کرنا، ان کا لباس بیان کرنا اس غرض سے تھا کہ میری امت غلطی نہ کھائے۔ یا دل میں ان باتوں سے کچھ اور مراد رکھ کر اپنی امت کو اور ایسی امت کو جسے آپؐ نے اتنے مصائب برداشت کرکے اور کیسی کیسی قیمتیں جانیں اس کے واسطے دے کر بنایا ہو،دھوکہ دینا۔بابوصاحب اگر ہم مرزے کی اس بات کو مان لیں۔ تو کیا ہم نے آنحضرتؐ کو خاکم بدہن ایک ناکام نہیں مانا؟ سوم… اب رہی یہ بات کہ کسی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۱۲۰ سال کے ہوکر فوت ہوئے۔ پہلے تو یہ بات سن لیں کہ مرزا قادیانی کون سی حدیث مانتا تھا اورکون سی نہیں مانتا تھا؟
۱… ’’یہ بھی یاد رہے کہ تمام ذخیرہ رطب ویا بس کا صحیحین میں نہیں ہے۔‘‘
(ازالہ اوّل ص۴۳، خزائن ج۳ص۱۲۴)
۲… ’’امام ابوحنیفہ نے بہت سی حدیثوں کو ردی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا۔‘‘
(ازالہ اوّل ص۵۳۱، خزائن ج۳ص۳۸۵)
۳… ’’اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں۔وان ظن لا یغنی من الحق شیئاً۔‘‘
(ازالہ دوم ص۶۵۴، خزائن ج۳ص۴۵۳)
اوراگر یہ قاعدہ مقرر کیا جائے کہ جو حدیث ہم پیش کریں وہ جھوٹی اورجومرزا پیش کرے وہ سچی۔ تب بھی یہ حدیث مرزے کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی۔ مرزا مانتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں جو فلما توفیتنی ہے۔ اس کے معنی موت کے ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ