کر دینی امور میں ہاں سے ہاں ملاتے رہتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات تو ہمارے نبیؐ کی توصیف اور اس دین کے اولیاء کی مدح و ثناء کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دل ان کے نہایت سیاہ اورسچائی سے دور ہوتے ہیں۔ان کے رو برو سچائی کو اس کی پوری مرارت اور تلخی کے ساتھ ظاہر کرنا اس نتیجہ خیز کا منتج ہوتا ہے کہ اسی وقت ان کا مداہنہ دور ہو جاتاہے اوربالجہر یعنی واشگاف اور علانیہ اپنے کفر اور کینہ کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا ان کی دق کی بیماری محرقہ کی طرف انتقال کر جاتی ہے۔ سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیدا کر دیتی ہے۔ اگرچہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے۔ مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہی تحریک روبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے۔ جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں۔ تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہوسکتا۔‘‘
قاضی صاحب… اب تو شک باقی نہ رہا کہ جتنی گالیاں پنڈتوں یا پادریوں نے ہمارے بزرگوں کو دی ہیں۔یا جتنا گندالٹریچر بانی اسلام یا آپ کی ازواج مطہرات کی نسبت لکھا گیا اس کے ذمہ دار خیر سے آپ ہی ہیں۔
نووارد… قاضی صاحب ان گالیوں کاحال بھی اسی شخص کی زبانی سن لیجئے۔یہ دیکھئے
(انجام آتھم ص۳۸،خزائن ج۱۱ص۳۸)
’’ان ظالم پادریوں نے لاکھوں گالیاں ہماری نبی کریمؐ کو دے کر ہمارے دلوں کوزخمی کر دیا۔‘‘ اور دیکھئے(ص۱۶۸البریہ،خزائن ج۱۳ص۲۰۱)’’مجھے وہ گالیاں دیں کہ اب تک مجھے کسی دوسرے کی سوانح میں ان کی نظیر نہیںملتی۔‘‘
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ہمارے علماء کرام نے جو خلق نبی کے پابند تھے۔ کیونکہ وہ ہر بات میں پیروی رسول اﷲؐ اپنافرض سمجھتے تھے۔ گالیوں کا جواب بھی کبھی گالیوں میں نہ دیا۔ اسی وجہ سے مرزے کو نظیر نہیں ملتی۔ آنحضرتؐ کی نسبت جو اﷲ فرماتا ہے کہ بیشک تمہارے اخلاق بڑے بلند درجہ کے ہیں۔اس کا تو ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ہر ایک کافر آکر بجائے السلام علیکم کے کہتا ہے کہ السام علیک یعنی تجھ پرہلاکت ہے۔ تو آپ اس کو اس کے جواب میں وعلیک السام بھی نہیں کہتے۔ صرف اتنا فرماتے ہیں وعلیک۔ یعنی تجھ پر بھی اوراس شخص کودیکھئے کہ میں آنحضرتؐ میں فنا ہوکر آنحضرت ہی ہوگیا اور مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ :’’انک لعلی خلق عظیم‘‘خلاف خلق رسول اﷲ اور خلاف حکم خدا کہ ’’ولا تسبو الذین یدعون من دون اﷲ فیسبوا اﷲ عدوا بغیر علم (پ۷ع۱۹)‘‘{اور مسلمانو! یہ مشرک خدا کے سوا جن معبودوں کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی براہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیںگے۔}