قاضی صاحب… جس شخص سے خدا تمام تمام دن یا رات سوال و جواب کرتا رہے اور تقریباً ہر روز خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوتا ہو اورالہامات اس پر بارش کی طرح برستے ہوں۔ اس کے لئے ایسی پیشین گوئی کر دینی ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ گاموں تو خواہ مخواہ ہنس ہنس کر اپنے پیٹ کی شامت لارہاہے۔تو مجھ سے شرط باندھ جس لڑکی سے تو کہے میں بغیر الہام اتارنے کے اس سے شادی کر کے دکھا دیتا ہوں۔
گاموں… جی الہام بغیر تے شادی اوکھی نہیں۔ سارا جہان پیاکردا ہے۔ میں بھی اک کڑی جنگل خیل چوں کیتی ہوئی ہے۔
قاضی صاحب… گاموں تیرے جیسا احمق تو میں نے دنیا بھر میں نہیں دیکھا۔ جس نکاح کی بابت خدا کہے کہ میں نے پڑھ دیا اور فلانی کی میں نے تجھ سے شادی کر دی۔ وہ نکاح بھی کبھی رک سکتاہے۔
گاموں… قاضی جی میں تے بیوقوف ہاں۔ پر تسی تے سیانے ہو۔ اتنا تے قیاس کرو۔ جے مرجے نوں ایہ الہام خدا نے کیتا ہندا تے مرجا کڑی دے پیو دی اتے اس دی پھپھی نوں عاجزی دیاں اتے دھمکی دیاں چٹھیاں کیوں پاندا۔ تے جے جھوٹے نبیاں دے سارے تک پورے ہو جان تے ساری خلقت نہ گمراہ ہو جاوے۔
بابوصاحب… گاموں آفرین،آفرین! لے بس اب خاموش ہوجا۔ مولوی صاحب ہمیں مرزے کی ان بدزبانیوں کی نسبت یہ تعلیم ملی تھی کہ اس نے گالیوں کے جواب میں گالیاں دی ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی بزرگوں اور نیک بندوں کی شان سے بہت بعید ہے۔ مگر آج معلوم ہوا کہ مرزے کا خود اقبال ہے کہ میں نے فلانے کو دل آزار کلما ت اس لئے کہے ہیں کہ وہ میرے ساتھ جنگ کرے۔
نووارد… اس میں کیا شک ہے؟پنڈت پادری اور مولوی تو مرزے سے پہلے بھی بہت گزرے۔ مگر یہ طریقہ لوگوں کو اپنے دین کی طرف لانے کا مرزے کا ہی ایجاد کردہ ہے۔ کیونکہ وہ طبیب اور طبیب کا بیٹا بھی تھا۔یہ پڑھئے (ازالہ حصہ اوّل ص۲۹، خزائن ج۳ ص۱۱۷)
بابوصاحب… لائیے میں پڑھتاہوں:’’اورسخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں۔ ایک تحریک ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہندوؤں کی قوم ایک ایسی قوم ہے کہ اکثر ان میں سے ایسی عادت رکھتے ہیں کہ اگر ان کو اپنی طرف سے چھیڑا نہ جائے تو وہ مداہنہ کے طور پر تمام عمر دوست بن