صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے
(درثمین ص۴)
گاموں… مولوی جی تساں اہ کی آکھیا؟
نووارد… گاموں میں نے اس کی بخشش کے لئے اس وجہ سے دعا مانگی کہ وہ اس شعر کے خلاف ایک بات سچی بھی کہہ گیا۔
گاموں… (متحیرہوکر)جی اوہ کہڑی؟
نووارد… یہ کہ اب ایسے کذابوں یعنی پادریوں سے زبانی مباحثات سے کیونکر فیصلہ ہو۔ ہم جھوٹے کو دندان شکن جواب سے ملزم تو کر سکتے ہیں۔ مگر اس کا منہ کیونکر بند کریں۔ اس کی پلید زبان پر کونسی تھیلی چڑھائیں۔ اس کے گالیاں دینے والے منہ پر کون سا قفل لگائیں۔ (انجام آتھم ص۳۸،خزائن ج۱۱ ص۳۸)دیکھوگاموںوہ بہشتی یہاں کیا سچ کہہ گیا کہ دجال دلائل سے قتل نہیں ہو سکتا۔اس کا ایمان لانا تو کیا اس کا منہ بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔گالیاں دیتا ہے۔‘‘
قاضی صاحب… مولوی صاحب کیا امام الزمان صاحب کو جن کی روحانی تربیت کا خدائے تعالیٰ متولی تھا۔ گالیاں دینی نہیں آتی تھیں؟
نووارد… قاضی صاحب آپ نے ان کے دلائل و حجج کا نمونہ تو دیکھ ہی لیا اورجب ان سے کچھ نہ بنا۔ جیسا کہ دنیا کی پیدائش سے آج تک دلائل و مباحث کا کبھی کچھ نتیجہ نہیںنکلا۔تو مرزا قادیانی نے مریدوں کی نبض دیکھ کر اپنے مخالفوں پر گالیوں سے غلبہ پانے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آریوں اور عیسائیوں نے جو بات نہ کہنے کی تھی۔ وہ بھی آنحضرتؐ کی نسبت کہی اور امہات المومنین اور نسخہ خبط احمدیہ جیسی کتابیں اسلام اور بانیٔ اسلام کی توہین میں لکھی گئیں۔ہاں! ان گالیوں سے ذاتی فائدہ ان کو یہ پہنچا کہ جوشیلے اورسادہ لوح مسلمان ان پر لٹو ہوگئے اور ان کے اشارہ پر جیبیں خالی کرنے لگے گئے۔
قاضی صاحب (ص۲۵حاشیہ کلمہ فضل رحمانی)پرلکھا ہے کہ مرزے کا باپ کشمیر جاکر پانچ روپیہ ماہوار پر ملازم ہوااورمرزے کا بیٹا بیمار ہوا تو پونے دو سو روپیہ روزڈاکٹر کی فیس مقرر ہوئی۔ دیکھو اخبار اہلحدیث۔ یہ روپیہ اگر نبوت کی کمائی نہیں، تو کہاں سے آیا؟قاضی صاحب اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ اشعار مرزا قادیانی کے ہی ہیں: