منظور ہوتی ہے۔ اسی قوم کے ایک فرد کو پیغمبر بناکر ان کی ہدایت پر مامور کرتا ہے۔ جو ان کی زبان بولتا ہے اور جس کی عمر ان میں گزری ہوتی ہے۔
نووارد… اچھا قاضی صاحب! اس میں تو کچھ کلام نہیں کہ مرزے کا مشن یہ تھا کہ کسر صلیب۱؎ کرنا ویکسر الصلیب۔
پس اگر اس کام کے واسطے۔ یعنی عیسائیوں کی اصلاح کے واسطے کیا خدا کو ایسا شخص بھیجنا چاہئے تھا جو نہ عیسائیوں کی قوم کا ہو نہ ان کی زبان سے مطلق واقف ہو۔ نہ ان میں چھوٹا بڑا ہوا ہو اوراگر مرزا قادیانی کی خاطر ہم یہ مان لیں کہ خدا نے اپنی عادت اور طریق کا خلاف کیا تو نتیجہ کہہ رہا ہے کہ یا تو خدا نے غلطی کی یا مرزا قادیانی اپنے دعوئے مسیحیت میں جھوٹا تھا۔ کیونکہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر شرک اورصلیب پرستی سے توبہ نہیں کی۔ مرزے کے دعوے صرف مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے تھے اوربس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ قاضی صاحب(ضرورۃ الامام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵) پرمرزا جلی حروف میں لکھتا ہے:’’امام الزمان میں ہوں۔‘‘اوراسی کتاب کے (ص۶، خزائن ج۱۳ ص۴۷۲) پر لکھا ہے:’’اب ایک ضروری سوال یہ ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں اوراس کو دوسرے ملہموں اور خواب بینوں اور اہل کشف پر ترجیح کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خدائے تعالیٰ متولی ہوکر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کے معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کرکے ان کو مغلوب کر لیتا ہے۔ وہ ہر ایک قسم کے دقیق دردقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پاکر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی فلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافرخانہ میں آئی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
اب مرزا قادیانی کے دلائل سنئے،آریوں کے مقابلہ میں شق القمر کا ثبوت (سرمہ چشم آریہ ص۸۷،خزائن ج۲ ص۱۳۵) پرلکھتا ہے:’’چونکہ اس زمانہ کی فلاسفی اپنی مستحکم رائے ظاہر کرتی ہے کہ شمس و قمر میں ایسی ہی آبادی حیوانات و نباتات وغیرہ ہے۔ جیسے زمین پر ہے اور یہ امر انشقاق و اتصال قمری ثابت کرنے والا ہے۔‘‘ لیکن (انجام آتھم ص۱۱۴،خزائن ج۱۱ص۱۱۴)پرتناسخ کے رد میں لکھتا ہے:’’آفتاب وماہتاب میں انسان آباد ہوتے تو ضرور تھا کہ میں بہت سے دوسرے جانور اور کیڑے بھی ہوتے ۔ جن میں انسانوں کی روحیں تناسخ کے طور پر داخل ہوئیں۔‘‘
۱؎ ’’میں صلیب کے توڑنے اورخنزیر کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیاہوں۔‘‘
(فتح اسلام ص۱۷حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۱)