امکان،یہاں وعدہ۔وہاں قیامت کے دن،یہاں نقد۔’’میراپاؤں وہاں ہے جہاں کل بلندیاں ختم ہو تی ہیں۔‘‘
’’اس کی ایسی مثال ہے کہ مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبیؐ سے ظہور میں آئے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۰،خزائن ج۱۷ص۱۵۳)
’’اگر خدائے تعالیٰ کے نشانوں کو جومیری تائید میں ظہورمیں آچکے ہیں۔آج کے دن تک شمار کیاجائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوںگے۔‘‘(حقیقت الوحی ص۴۶،خزائن ج۲۲ص۴۸)
اس کی مثالیں میں پہلے عرض کر چکاہوں کہ آنحضرتؐ کے واسطے صرف چاند کو گرہن لگا۔ میرے واسطے چاند اورسورج دونوں کووغیرہ وغیرہ۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب آپ کے خیال میں مرزا قرآن کا مطلب اور مضمون سمجھتا تھایا نہیں؟
نووارد… ایسا ہی سمجھتاتھا۔ جیسا کہ میں یا آپ ترجمے اورتفسیریں دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اور یہ دعویٰ اس کا بالکل غلط تھا کہ میں قرآن کے حقائق و وقائق بیان کرنے کا معجزہ دیاگیا ہوں۔ یاالرحمن علمہ القرآن خدائے رحمن نے مجھے قرآن سکھادیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کی تردید آپ اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ ان میں آپ تمام عمر بھنبل بھوسے کھاتے رہے اور ان کی حقیقت نہ بیان کر سکے۔ چڑیوں کی نسبت کبھی کہا کہ تالاب کی مٹی کی تاثیر ہوگی۔کبھی کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ یوسف نجار کے ساتھ مدت تک کام کرتارہا۔ ممکن ہے کسی کل کے دبانے سے وہ اڑتی یوںاور(حقیقت الوحی ص۳۹۰،خزائن ج۲۲ ص۴۰۵ حاشیہ) پر ہوں لکھا:
’’یہ واقعہ جو قرآن شریف میں مذکور ہے۔اپنے ظاہری معنوں پرمحمول نہیں۔ بلکہ اس سے کوئی خفیف امر مراد ہے۔جو بہت وقعت اپنے اندر نہیں رکھتا۔‘‘ اور (ازالہ حصہ اول ص۳۰۴ حاشیہ، خزائن ج۳ص۲۵۵)پرلکھا:’’مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ امی اورنادان لوگ ہیں۔ جن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا رفیق بنایا۔ قرآن شریف میں جو سات زمینیں پیدا کئے جانے کاذکر ہے۔ اس پر اسلام کے مخالف ہمیشہ سے حملہ کرتے آئے ہیں۔‘‘
مرزے نے (انجام آتھم ص۲۶۳،خزائن ج۱۱ص۲۶۳) پرجو اس کا جواب دیا ہے وہ یہ ہے۔ شاید لفظ ہفت زمین سے اشارہ ہفت اقلیم کی طرف ہو۔ قاضی صاحب کیا خدائے تعالیٰ بھی علم جغرافیہ سے اسی قدر واقف تھا۔جس قدرکہ یہ دنیا کوہفت اقلیم میں محدود کرنے والے کہ دونوں کی