’’حضرت عیسیٰ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵،خزائن ج۱ ۱ ص۲۸۹)
اس سے پایاگیا کہ یا تو اسلام کا اتنا بڑاپیغمبر شرک جیسے گناہ کاعادی تھااور یا جھوٹ بولنا گناہ ہی نہیں۔
بابوصاحب… مولوی صاحب ہم بھی کیسے بے غیرت ہیں کہ اس شخص کو مرزا صاحب کہتے ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کو شریر ،مکار اورجھوٹا کہتا ہے اور اپنے سے پہلے مدفونوں کو اپنے پاؤ ں کے نیچے بیان کرتاہے۔
نووارد… بابوصاحب آج کے بعد انشاء اﷲ آپ میرے منہ سے یہ لفظ اس شخص کے واسطے کبھی نہیں سنیںگے۔ایک مثال اور لیجئے۔ ’’پس ہم ایسے ناپاک خیال اورمتکبر اور راست بازوں کے دشمن کو یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۹،خزائن ج۶ص۲۹۳)
قاضی صاحب… بڑے جوش وخروش میں لیجئے۔ بابوصاحب اس شخص کے واسطے خدا نے غیب سے ایک اوربنابنایا فیصلہ دے دیا۔ یہی ہم سب کا فیصلہ ہے اس شخص کے حق میں سب طرف سے بیشک بیشک کی آواز۔
قاضی صاحب… گاموں بس تالیاں بجانا چھوڑ اورمولوی صاحب کے واسطے ایک چلم بھر لا۔ حقہ بھی ٹھنڈاکرلا۔
نووارد… قاضی صاحب خدابڑابے نیاز ہے۔ہمیشہ آپ کو بنے بنائے فیصلے دے دیتاہے۔ مگر مجھے اسی قسم کی بزرگوں کی توہین کی ایک اورمثال یاد آگئی۔ قاضی صاحب اسے ضرور سنئے گا۔
(نزول المسیح ص۴۵، خزائن ج۱۸ص۴۲۳،۴۲۴)پرلکھتاہے:’’امام حسینؓ سے توزید ہی اچھا رہا۔ جس کا نام قرآن شریف میں موجود ہے۔‘‘
قاضی صاحب… تھوڑی دیر ہونٹوں میں کچھ کہہ کر۔ میں حیران ہوں کہ یہ شخص اپنی بڑائی تو کرتاتھا۔ مگر ہمارے بزرگوں کی تحقیر کیوںکرتاتھا؟
نووارد… قاضی صاحب اس کی وجہ آپ نہیں سمجھے۔
قاضی صاحب… یہ کارروائی میری سمجھ میں تو نہیں آئی۔
نووارد… تو میں آپ کو بتاؤں،سنئے!ایک شخص نے یہ دیکھ کر کہ ایک زمیندار اپنے کھیت میں سے بڑی محبت سے گھاس چن چن کر نکال رہا ہے۔اس سے دریافت کیا کہ اس فعل عبث پر کیوں