بابوصاحب میں کچھ یہاں جملہ معترضہ کے طورپر اوربھی بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کومعلوم ہو جائے کہ دروغگورا حافظہ نباشد کے کیامعنی ہیں؟ مرزے کی تقریریں کے ص۱۰ کوملاحظہ کیجئے۔ اس معاملہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:’’یہی امر ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کو کہا گیا کہ اے نیک استاد تو چونکہ ان کو علم تھا کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو نیک نہ کرے۔ وہ نیک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے فوراً انکار کیا اور اسے کہہ دیا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں نیکی کو اپنی طرف منسوب کرتاہوں۔ حقیقی نیکی تو خدائے تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ جب چاہے۔ اپنے فضل سے عطاء کرے۔ جب چاہے شامت اعمال کے سبب سلب کرے۔ حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے۔
۸… ’’مرگی کے مبتلا اکثرشیاطین کو اسی طرح دیکھا کرتے ہیں۔ یسوع دراصل مرگی کی بیماری میں مبتلاتھااور اسی وجہ سے ایسی خوابیں۱؎ دیکھاکرتا تھا۔‘‘ ( ست بچن ص۱۵،خزائن ج۰اص۲۹۴)
۹… ’’ایسے عامل ہمیشہ شراب اورپلید چیزیں استعمال کرتے رہتے ہیں اول درجہ کے شرابی اور کھاؤ پیو ہوتے ہیں۔‘‘ (ست بچن ص۱۷۱، خزائن ج۱۰ ص۲۹۵)
۱۰… ’’بات یہ ہے کہ کبوتر کا رنگ سفید ہوتاہے اوربلغم کا رنگ بھی سفیدہوتاہے۔ سو وہ بلغم کبوتر کی شکل پر نظرآگئی۲؎۔‘‘
بابوصاحب میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نقشہ جو مسلمانوں نے کھینچاہوا ہے۔ وہ بھی بیان کردیا۔ جو مرزاقادیانی نے کھینچا ہے وہ بھی بیان کردیا۔ اب کسی مرزائی سے پوچھیں کہ مرزا قادیانی کون سے مسیح سے مشابہت رکھتے تھے اور کس کس بات میں۔ کیونکہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ میں اور مسیح ایک ہی جوہر کے دوٹکڑے ہیں۔ ہاں اس بات کا خیال رہے کہ تقویت الایمان میں آپ حضرت مسیح کو حرامی ثابت کر چکے ہیںاور ست بچن میں ان کی نانیوں، دادیوں کی بد کاریوں کی وجہ سے ان کے گوہر فطرت پرداغ لگا چکے ہیں۔
بابوصاحب… اس سوال کا نصف جواب تو میں آپ کو دے دیتاہوں اور وہ یہ ہے کہ پہلی قسم کے مسیح سے قیامت تک بھی کوئی مشابہت مرزے کی ثابت نہیں ہوسکے گی۔باقی نصف کا جواب مرزائیوں کے ذمہ ہے۔
۱؎ مرزا قادیانی آپ اردو کی مٹی کیوں پلید کررہے ہیں۔ آخر اس بے چاری کا کچھ قصور؟
۲؎ مرزا قادیانی بے ادبی معاف آپ اردو دیکھ رہے ہیں یا پنجابی۔اگر اردو نہیں جانتے تو اپنی قادیانی میں کیوں نہیں لکھتے؟