۱۹۰۶ ء ۱۹۰۷ء میں اپنے مخالفوں کے بعد تک زندہ رہنے کو اپنی صداقت کانشان بتارہا ہے اورقرآنی آیات و الفاظ میں الہامات اتاراتار کر ان کوڈرااوردھمکا رہا ہے کہ تمہارا اخزا اورافنا میرے ہی ہاتھ سے مقدر تھا۔ مجھے خدا خانہ کعبہ کہتا ہے اور تم کو اصحاب فیل سبحان اﷲ اصحاب فیل تو زندہ صحیح سلامت اور ہشاش بشاش اور خانہ کعبہ صاحب زیرزمین اور طرفہ یہ کہ نہ کسی الہام میں موت کے الہام کاکچھ ذکر۔ نہ مرزا قادیانی کی طرف سے اس کی طرف کچھ اشارہ۔
اب کون سا احمق ہے کہ ان باتوں کے ہوتے ہوئے یہ سمجھے گا کہ مرزا قادیانی کو ۱۹۰۵ء میں ایک دفعہ بھی موت کا الہام ہوا تھا اور جب یہ الہام موت کا جھوٹا ثابت ہوا تو رسالہ الوصیت کے جتنے الہام ہیں۔ سب جھوٹے اور بہشتی مقبرہ بنانے اور اس کے واسطے چندہ لینے کے لئے ثابت ہوئے۔ کیونکہ معمولی قبرستان میں مدفون ہونا آپ کی شایان شان نہ تھا۔ جب تک کہ مرید چندہ کرکے اس میں کنواں کھدوا کر باغ نہ بنوادیں اور جب رسالہ الوصیت کے تمام الہامات جھوٹے تو مرزا کے کل الہام جھوٹے۔ پس میرا قاضی صاحب کے فیصلے سے بکلی اتفاق ہے کہ مرزا دہریہ تھا اور اس نے اس مسلمانی جامہ میں مسلمانوں کولوٹا۔ خود عیش سے زندگی بسر کرگیا اور اولاد کے واسطے کل ہند سے قادیان روپیہ اورنقد وجنس آنے کے لئے پختہ سڑک بناگیا۔ہزاروں روپیہ ہم سے کھینچا گیا اور کھینچا جارہا ہے۔ جو پوچھو کہ یہ روپیہ کدھر جاتا ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام ہورہی ہے۔ ہم نے آج تک کسی امریکہ یا یورپ کے نومسلم کو نہ دیکھا کہ اسلامی معاملہ میں اس کے کان پر جوں تک چلی ہو۔ہمارے روپیہ کے ٹفن اور کھانے کھائے اورکھلائے جاتے ہیں اورا س سے زیادہ کچھ نہیں۔ڈھل مل یقین لوگوں کی تلاش میں پھرتے ہیں کہ ہماری تعداد بڑھ جائے تو ہم بھی کسی قطار میں آجائیںاور ہمارے بیوقوف بھائی سمجھتے ہیں کہ وہ خدمت اسلام کررہے ہیں۔ حقیقت میں وہ اسلام کے دشمنوں کی تعداد بڑھارہے ہیں۔ مولوی صاحب میں آپ سے کیاعرض کروں اگر میں ان لوگوں سے سرنہ منڈوابیٹھتا توآج میں اپنے دونوں لڑکوں کو تعلیم کے لئے ولایت بھیج سکتاتھا۔
مولوی صاحب میرے خیال میں آپ ان تبلیغ کنندوں سے لاکھ درجہ بہتر ہیں کہ اپنے دست و بازو کی کمائی حق حلال کی کھاکر اس کام میں اپنا پیسہ اپنی طاقت،اپنی صحت اپنی بینائی، اپنا دماغ خرچ کررہے ہیں او ر کسی مسلمان کی جیب کو خبر تک نہیں
قاضی صاحب… بابوصاحب!واقعی آپ درست فرمارہے ہیں۔ میں نے بھی اس معاملہ پر بہت غور وفکر کیا اورمیں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ میں تو مرزا