امام رافعیؒ نے اس کواپنی طرف سے نقل کیاہے، مگراس کی سند بیان نہیں کی، حالانکہ یہ حدیث، بخاری میں منقول ہے ، یہ قِسم نکاح وغیرہ سے متعلق ہے۔
اس نوع (واجبات) کی دوسری قسم میں تین مسئلے ہیں :
(۱)چاشت کی نماز(۲) قربانی (۳) وترکی نماز۔
ہمارے فقہائے کرام نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مرفوع حدیث کو، مستدل بنایا ہے:
’’ ثَلٰثٌ ھُنَّ عَليَّ فَرْضٌ، وَلَکُمْ تَطوّعٌ :النَّحرُ، وَالوِتْرُ وَرَکعَتَاالضُّحیٰ‘‘(۱)
ترجمہ:تین چیزیں مجھ پرفرض ہیں ،تم لوگوں کے لئے نفل ہیں :قربانی کرنا، وترکی نماز پڑھنااور چاشت کی دورکعت پڑھنا۔(۲)
اس کو امام احمدنے اپنی مسند میں ، ایسے ہی امام بیہقی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے، امام دارقطنی نے لکھاہے کہ: فجرکی دورکعت، چاشت کی دورکعت کابدل ہیں ۔ ابن عدی نے اس کو روایت کیاہے، جس کے الفاظ یہ ہیں :
’’ ثَلٰثٌ عَليَّ فَرِیضَۃٌ، وَلَکُم تَطوَّعٌ: الوِتْرُ، وَالضُّحٰی وَرَکعتَاالفَجرِ‘‘
ترجمہ :تین چیزیں مجھ پرفرض ہیں ، تمہارے لئے نفل ہیں : وتر کی نماز، اشراق کی نماز،اورنمازِ فجر کی دورکعت ۔
امام حاکم نے اس کو اپنی مستدر ک میں نقل کیاہے ،جس کامدار ابوجناب کلبی ہیں ، جن کا نام، یحییٰ بن ابی حیہ ہے، اورابوحیہ کانام حُیَيٌّ ہے۔ انہوں نے اس روایت کو، حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل
------------------------------
(۱)مسندامام احمدبن حنبل (۱؍ ۲۳۱) رقم الحدیث :۲۰۵۰۔[دارالحدیث القاہرہ،۱۴۱۶ھـ]
(۲) یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ حدیث کی اصطلاح میں فرض کے علاوہ کو، مطلقاً نفل کہاجاتاہے، خواہ سنت ہو یا واجب اور چاہے مستحب۔