صاحب کو کئی مرتبہ زیارت مبارکہ کا شرف اور سعادت حاصل ہوئی، کئی عجیب وغریب بشارتوں سے نوازے گئے اور کئی اہم تحریریں اور تالیفات، جن کے پڑھنے والوں میں بھی ایک سرمستی اور خوشی کی نامعلوم لہر دوڑ جاتی ہے، کوٹہ میں وجود میں آئیں ، اسی دور کی ایک قابل قدر دینی علمی یادگار، علامہ ابن الملقن کی تالیف، غایۃ السؤل کی تلخیص بھی ہے۔
حضرت مفتی صاحب کو کوٹہ میں ، غایۃ السؤل کے ایک ایسے مبارک نسخہ کے پڑھنے، استفادہ کرنے کا موقع ملا، جو علامہ میر اصیل الدین محدث کے نسخہ کی نقل تھا، علامہ نے اس نسخہ کی تصحیح فرمائی تھی، اوراسی منقولہ نسخہ میں ، علامہ کمال الدین عبدالحق بورانی نے، رمضان المبارک ۸۷۲ھ[مارچ اپریل۱۴۶۷ء]پڑھایاتھا۔مفتی صاحب نے تلخیص کے آخر میں ، اس کی ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے:
’’من نسخۃ منقولۃ عن نسخۃ صححہا، میر أصل الدین المحدث الواعظ، وقرأہا فیہا، الشیخ کمال الدین عبدالحق البوراني، في سنۃ اثنتین وسبعین وثمانمائۃ فی شہر رمضان من الہجرۃ‘‘
مفتی صاحب نے اس نسخہ کو بتمام وکمال پڑھا ، اس سے گہرا استفادہ کیا، اس مطالعہ نے مفتی صاحب کو اس کی تلخیص پر آمادہ کیا، مفتی صاحب نے بہت کم وقت میں اس کا ایک عمدہ اور جامع خلاصہ مرتب ومکمل فرمالیاتھا۔ مفتی صاحب نے لکھاہے:
’’قد انتخبت من غایۃ السؤل فی خصائص الرسول- وأنا الفقیر الٰہی بخش، مع عجلۃ الوقت في زمان یسیر لیکون لي۔۔۔۔۔ علی النبی ووسیلۃ عن جمیع المصائب والآفات‘‘
مفتی صاحب نے اس تلخیص کے آغاز پر تحریرفرمایاہے: