[ان سے] الگ ہوگئے ہیں ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرنام رکھنے اورکنیت استعمال کرنے کو، ہرحال میں منع کیاہے ۔اس کو شیخ زکی الدین منذری نے ذکر کیاہے۔
بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ ممانعت منسوخ ہے، میں یہ کہتاہوں کہ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ’’الصبر‘‘نسخۂ مصنف کے آخر میں :محمدبن طلحہ کی رضاعی ماں کی روایت نقل کی ہے ،ان سے عیسی بن طلحہ نے نقل کیاہے۔ کہتی ہیں کہ جب محمدبن طلحہ پیداہوئے، تو ہم ان کو لیکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ، اس کا کیانام رکھا؟ہم نے عرض کیا محمد نام رکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ میرانا م ہے اور ان کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ اگریہ [روایت]صحیح ہے تویہ واقعہ نسخ سے پہلے کاہے۔
معلوم ہونا چاہئے ،کہ ایک بڑی جماعت نے اپنے لڑکوں کانام محمد اوراپنی کنیت ابوالقاسم رکھی ہے ، ان میں سے بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ بھی پایاہے، انہی لوگوں میں سے ابوالقاسم محمدبن حنفیہ کے واسطہ سے روایتیں بھی منقول ہیں ۔ حضرت علیؓ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاارشادہے ،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدمیرے بیٹاپیداہو، تو کیا میں اس کا نام محمداورکنیت ابوالقاسم رکھ لوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا رکھ لینا ۔کہتے ہیں کہ یہ اجازت میرے لئے تھی۔ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
میں کہتاہوں کہ ایک روایت یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے ارشادفرمایا کہ، میرے بعد ایک لڑکا پیداہوگا،میں نے اس کا نام اپنے نام پر،اس کی کنیت اپنی کنیت پررکھ دی، مگران کے بعدپھر کسی امتی کے لئے یہ نام اورکنیت رکھناجائز نہ ہوگا۔ اسی طرح ابوالقاسم محمدبن ابی بکرصدیقؓ اورمحمدبن طلحہ بن عبیداللہ ہیں ، اور محمدبن سعد بن ابی وقاص ہیں ،اورمحمدبن عبدالرحمن بن عوف ہیں ،اورمحمدبن جعفر بن ابی طالب ہیں ، محمد بن حاطب بن ابی بلتعہ ہیں ، محمدبن اشعث بن قیس ہیں ان سب کی کنیتابوالقاسم تھی۔ انہی لوگوں میں