وجہ یہ تھی کہ، یہودیوں نے بھی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھنی شروع کردی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنے کے لئے، اپنے آدمیوں کوابوالقاسم کہہ کر آوازدیا کرتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوتے، توکہتے کہ ہم آپ[ ا] کوآوازنہیں دے رہے ہیں ، اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا، اس لئے اب یہ نام اورکنیت دونوں رکھنے جائز ہیں ۔
یہی رائے امام غزالی نے احیاء میں علماء سے نقل کیاہے، امام نووی نے روضہ میں کہاہے کہ رافعی کی بات کمزورہے، علامہ نووی نے اپنی کتاب الاذکار میں جویہ کہاہے یہ قابل غور ہے۔رافعی کی یہ روایت ضعیف ہے اوراصل حدیث کے مخالف ہے۔ یہ توصحیح مرفوع حدیث کے عین مطابق ہے۔امام احمد ابوداؤد اورترمذی نے، حضرت جابرؓکی حدیث ابوالزبیرکے واسطہ سے روایت کی ہے :
مَنْ تَسَمَّی بِإسْمِي فَلایَتَکَنّٰی بِکُنّیَتِي وَمَن تَکنّٰی بِکُنّیتيْ فَلا تُسمّی بِإسْمِي۔(۱)
جومیرے نام پرنام رکھے وہ میری کنیت نہ رکھے، جومیری کنیت پرکنیت رکھے وہ میرانام نہ رکھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔
امام بیہقی نے شعب الایمان میں اس کی تخریج کی ہے اورلکھاہے کہ اس کی سندصحیح ہے، ابن حبان اورابن السکن نے بھی اس کو صحیح کہاہے،ہمارے بڑے علماء میں سے، ابوحاتم بن حبان کابھی یہی فیصلہ ہے، انہوں نے اپنی صحیح میں اس کی وضاحت کی ہے، لیکن دوسرے علماء
------------------------------
(۱) سنن ترمذی ۲/۱۱۔کتاب الأدب، باب ماجاء في کراہیۃ الجمع بین إسم النبي وکنیتہ(۵/۱۲۴) رقم:۲۸۴۲۔ مجمع الزوائد (۸/۴۸)