اورامہات المؤمنینؓپرنظرڈالنے کے جوازمیںں ،کتاب الحاوي میں دوقول مذکور ہں ں: مشہورقول ممنوع ہونے کاہے، رافعی نے اسی پروثوق ظاہرکیاہے، ان کے میں ہونے کا حکم، خلوت کے جائزہونے یاسفرکرنے میں ثابت نہیں۔اورنہ یہ حکم نفقہ اورمیراث میں ہے۔ یہ حکم ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اورکے لئے نہیںہے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیں ں کو، تمام مؤمنین کی نہ بہنں ں کہاجائے گا، اورنہ ان کے بھائیں ں کومومنین کے چچا اورما میں اور بہنں ںکو، تمام مؤمنین کی پھوپھی اور خالہ کہاجائے گا،اس اعتبارسے حضرت معاویہؓ مؤمنین کے ما میں نہیںہں ں۔دلیل اس کی یہ ہے کہ ان کی بیٹیں ں بہنں ں اوربھائیں ں سے، مؤمن مردں ں اورعورتں ں کانکاح کرلینا،حرام نہیںہے۔
حضرت زبیرؓنے حضرت عائشہؓ کی بہن سے اورحضرت عبدالرحمنؓ نے ،زینب کی بہن حمنہ سے نکاح کیا۔ ایسے ہی ان کے میں باپ کو بھی، مؤمنین کے نانا،نانی نہیںکہا جائے گا،بلکہ جواحکام ازواج کے آئے ہں ں،مسئلہ ان ہی تک محدودرہے گا۔
امام رافعی نے نقل کیاہے کہ (خؤولہ کالفظ) یعنی ننھیالی رشتہ ،اسی طرح اخوت کارشتہ میں کے رشتہ کے ثبوت کی وجہ سے چل پڑاہے، اگرچہ یہ (ننھیالی اوراخوت کارشتہ) حرمت نکاح کو ثابت نہیںکرتا۔ امام بغوی کہتے ہں ںکہ وہ مردں ں کی مائں ں ہں ں،عورتں ں کی نہیں، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، کہ ایک عورت نے ان کوپکارا:’’یاأماہ‘‘ اے میں !توا نہیںنے جواب دیا، میں تمہاری میں نہیںہں ں، میں تمہارے مردں ں کی میں ہں ں۔
یہ بات ہمارے علماء کے نزدیک صحیح ہے کہ عورت، مردں ں کے خطاب میں داخل نہیں ہوتی، امام بغوی کہتے ہں ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردں ںا ورعورتں ں سب کے باپ تھے، حالانکہ یہ بھی کہاگیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومؤمنین کاباپ کہنا جائز نہیں، اس لئے کہ اللہ کا ارشادہے: