یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں۔ یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔ ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھادوںگا۔تاکہ معلوم ہوکہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امرمیرے اختیار میں ہے۔ یہ عظیم الشان پیشین گوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اور میری عزت اور دشمن کی ذلت اورمیرا اقبال اوردشمن کا ادبار بیان فرمایاہے اوردشمن پر غضب و عقوبت کا وعدہ کیا ہے۔ مگر میری نسبت لکھا۱؎ ہے کہ دنیا میں تیرا نام بلند کیاجائے ا اور نصرت و فتح تیرے ساتھ شامل حال ہوگی اور دشمن جو میری موت چاہتا ہے۔ وہ خود میری آنکھوں کے روبرو اصحاب فیل کی طرح نابود اورتباہ ہوجائے گا۔خدا ایک قہری تجلی کرے گا اور وہ جو جھوٹ اور شوخی سے باز نہیں آتے۔ ان کی ذلت اور تباہی ظاہر کرے گا۔ مگر میری طرف ایک دنیا کو جھکا دے گا اورمیرا نام عزت کے ساتھ دنیا کے ہر ایک کنارہ میں پھیلادیگا۔ سو چاہئے کہ میری جماعت کے لوگ اس پیشین گوئی کے منتظر رہیں اورتقوے اورطہارت سے پاک نمونہ کھادیں۔‘‘
خاکسار مرزا غلام احمد۵؍نومبر۱۹۰۷ء (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۵۸۵تا ۵۹۲)
صاحبان میری اس سے بحث نہیں کہ اس اشتہارکے چھاپہ خانہ کے حروف کو جو لوہے یا سکے کے بنے ہوئے ہوتے ہیں، وزن کیا جائے۔ تو پانچ سیر پختہ جھوٹ اور افتراء علی اﷲ ثابت ہوگا۔ یا اگر مولوی محمد علی صاحب لاہور میں اس کا امتحان کیمیائی کرادیں تو ایک رائی کے دانہ کے برابر سچ اس سے برآمد نہ ہوگا۔ مگرمیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اشتہار خدا سچے کاحامی ہو۔ مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء پڑھ کر اور مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ۔
اور یہ اشتہار تبصرہ مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء پڑھ کر انسان کے ذہن میں آسکتا ہے کہ ان اشتہارات دینے والے کو دسمبر۱۹۰۵ء میں موت نہایت قریب ہونے کے پے درپے الہام ہوئے تھے۔جنہوں نے اس کی ہستی کی بنیاد کو ہلادیاتھا اور الوصیت بھی لکھ چکاتھا۔یعنی وصیت کرچکا تھا۔ اب اس میں کچھ شک باقی نہیں رہا کہ مرزا قادیانی کو الہام موت ہوا ہی نہ تھا۔ اگر ہوتا تو اشتہار خدا سچے کا حامی ہو،میںڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کو بجائے اس کے یہ لکھتے کہ میں ایسی موت نہیں مروں گا کہ میرے آگے بھی لعنت ہو اورپیچھے بھی۔ یہ دیکھتے کہ بھائی صاحب آپ تو یہ لکھتے ہیں کہ میں آج سے تین سال بعد فوت ہو جاؤں گا۔ لیکن مجھے تو تین روز زندہ رہنے کی بھی امید نہیں۔
۱؎ مرزا قادیانی الہام گھڑتے گھڑتے چوک گئے۔ شاید کسی کتاب سے کچھ نقل کررہے تھے۔