’’وانی قتیل تحب لکن حسینکم … قتیل العدیٰ فالفرق اجلٰی واظہر‘‘(اعجاز احمدی ص۸۱،خزائن ج۱۸ص۲۹۳) یعنی میں محبت کا کشتہ ہوں مگر تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق کھلا اور ظاہر ہے۔
بھائیو!انصاف سے کہو، کیا کوئی مسلمان کے قلم وزبان سے یہ کلمات نکل سکتے ہیں؟کیا کوئی انسان رسول الثقلین پر ایمان لاکر اپنے مقابلہ میں ان کے قرۃ العینین کی اس طرح فضیحت کر سکتاہے۔ وہ امام حسینؓ جنہوں نے اسلام کے پودے کی پرورش اپنے خون سے کی۔ جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنی جان کو قربان کردیا۔ جو سید المرسلین کے نواسہ ہیں اور جنہیں سید المرسلین نے اہل جنت کا سردار فرمایاہے اورنجات کے لئے کشتی نوح کے مثل ٹھہرایاہے۔ ان کی نسبت مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ (حسینکم)تمہارا حسین، یعنی ہمارانہیں؟
اورپھر لکھتے ہیں کہ میں محبت کا کشتہ ہوں اور امام حسین دشمنوں کے کشتہ تھے۔یعنی انہیں محبت الٰہی سے واسطہ نہ تھا۔ ان کی شہادت محبت خدا کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ میںکشتہ محبت خدا ہوں۔ کیونکہ میری زندگی امن و آرام اورچین و راحت سے گزرتی ہے۔ قورما پلاؤ کھانے کو اور مشک و زعفران استعمال کرنے کو ملتاہے۔ افسوس ایسی عقل پر:
فخر کیا کرتا ہے ایسی عقل پر
حشر میںروئے گا ایسے جہل پر
توہین انبیاء کرام
مرزا قادیانی نے انبیاء کرام کی توہین میں جس قدر گستاخی اوربے باکی سے کام لیا ہے۔ لکھتے وقت طبیعت میں ایساڈر، ایسا خوف اور ایسی دہشت پیدا ہوتی ہے کہ قلم لکھنے سے رک جاتا ہے۔ مگر مجبوراً آپ حضرات تک ان کے عقائد پہنچانے کے لئے تحریرکیاجاتاہے۔ ورنہ طبیعت ہرگز ہرگز اس بات کی مقتضی نہیں ہوتی کہ ان الفاظ کو لکھاجائے۔
۱… مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’بلکہ اکثر پیش گوئیوں میں ایسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں کہ خود انبیاء کرام کو ہی جن پر وہ وحی نازل ہو، سمجھ میں نہیں آسکتے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۰،خزائن ج۳ص۱۷۱)
۲… ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ’’ایک پادشاہ کے وقت میں چار نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیش گوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست ہوئی۔ بلکہ وہ اسی میدان میں مرگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۲۹، خزائن ج۳ص۴۳۹)