کھولا تو ویسے ہی تروتازہ پھولوں کی کلیاں سی لاشیں مع کفن نکلیں گویا کہ کل ہی دفن ہوئی ہیںاور بعض کوان میں سے دیکھا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھ کر ویسے ہی رہ گئے ہیں ہاتھ کو جدا کرتے ہیں تو زخم سے خون جاری ہوجاتاہے۔ ہاتھ کو اٹھا کر چھوڑ دیتے ہیں تو پھر وہیں زخم پر پہنچ جاتاہے۔ ان قبور شریفہ کے کھلنے کے جو سبب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعضی بعضی لاشوںکے دفن میں خلط ہو گیا تھا۔ قرابتی ایک کا دوسرے کے پاس دفن ہواتھا۔ تولوگ آنحضرت ﷺ کی اجازت صریح سے یا دلالت حال سے یا قیاس و اجتہاد سے ان لاشوں کو نکال نکال کر جدا جدا دفن کرتے تھے اوربعض قبروں کے کھل جانے کی وجہ سیل ہوئی تھی اوراکثر اس جہت سے قبریں کھلیں کہ حضرت معاویہؓ نے اپنے زمان امارت میں ایک نہر کھدواکر اسی مشہد مقدس کی طرف جاری کی تھی۔ تو لاشیں نکال نکال کر الگ جاکر دفن کرتے تھے۔‘‘
امام تاج الدین سبکیؒ ’’شفاء الاسقام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جس وقت حضرت معاویہؓ نے نہر نکالی اورنقل شہداء کا اپنے مواضع قبور سے حکم دیا اس وقت ایک کدال حضرت سید الشہداء سیدنا حمزہ بن عبدالمطب ؒ کے پائے مبارک میں لگی۔ اس سے خون جاری ہوا اور نقل کرتے ہیں کہ نہر کھدنے کے وقت ان کے عامل نے منادی کی کہ امیر المومنین کی نہر آتی ہے۔ جس کسی کا مردہ یہاں دفن ہو آئے اورمردہ کو یہاں سے اکھاڑکر اور جگہ لے جاوے۔‘‘
(مرغوب القلوب ترجمہ جذب القلوب ص۱۹۵)
اب میں یہ کہتاہوں کہ جب انبیاء کے متبعین صدیقین کی یہ حالت ہو، کہ ان کے اجسام زمین نے نہ کھائے ہوں تو کیا ان کے پیشواؤں یعنی انبیاء کی یہ حالت نہ ہوگی؟
اب مرزائی صاحبان کو چاہئے کہ مرزا قادیانی کو اس معیار پرپرکھیں۔ اگر ان کا جسد بالکل صحیح وسالم نکل آئے اوران کے چہرے پر انوار نبوت موجود ہوں تو ہم ان کونبی ماننے کوتیار ہیں۔ ورنہ ان کو مرزائیت سے تائب ہوناپڑے گا۔اگر مرد میدان ہو، تونکلو:
بس تنگ نہ کر اے ناصح نادان مجھے اتنا
یا چل کے دکھادے،دہن ایسا ،کمر ایسی
تیسرا معیار
قرآن شریف میں ہے:’’وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ‘‘ یعنی ہم نے تمام پیغمبروں کو انہی کی قوم کی زبان میں پیغمبربناکر بھیجاہے۔
مرزا قادیانی دنیا میں آئے اورقصیدہ اعجازیہ لکھ کرانہوں نے بڑے زور سے اعجاز کا