مگر افسوس! ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر بے سود ،سعی کی، مگر بے فائدہ، کوشش کی مگر ناکام۔
ہائے غضب !لڑکی کانکاح والدین نے عمداً دوسری جگہ کردیا اور یہ میاں بدھڑ منہ تکتے رہ گئے۔ خوب منہ کالا ہوا۔چاروں طرف سے پھٹکاروں اور لعنتوں کی بوچھاڑ بارش کی طرح برستی رہی۔ شرم کے مارے پانی پانی ہوگئے۔مگر مکاری و عیاری کی دوسری راہ تو آپ کو پہلے ہی سوجھ چکی تھی اور اس کا انتظام پہلے ہی سے کر چکے تھے۔ جبھی تو شرط بیوہ لگا دی تھی۔
خیر اب قطعی ناامید ہوگئے اور دیکھ لیا کہ سخت ذلت و رسوائی ہوئی ہے اور لوگوں نے ناک میں دم کردیا ہے۔ اسی وقت پہلو بدلا اور اس لڑکی کے خاوند کی طرف سے عنان توجہ منعطف کی اور اس موت کی بابت پیش گوئی کر دی۔ لکھتے ہیں ’’یاد رکھو ، کہ اگر اس پیش گوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی(یعنی احمدبیگ کا داماد اگر میرے سامنے نہ مرا) تو میں ہر ایک بد سے بد ترٹھہروں گا۔ اے احمقو!یہ انسانی افتراء نہیں۔ یقینا سمجھو کہ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴،خزائن ج۱۱ص۳۳۸)
یاد رہے !پہلے مرزا قادیانی کے صدق و کذب کا معیار نکاح و عدم نکاح محمدی بیگم تھا۔ اب اس کے ضمن میں ایک دوسرا معیار احمد بیگ کے داماد کی موت کی پیش گوئی مقرر ہوگئی۔
مرزا قادیانی نے پیش گوئی مذکورہ بالا میں اس زور کے ساتھ یقین دلایا کہ اس سے زیادہ اعتماد و وثوق ظاہر کرنا اور دوسرے کو یقین دلانا ہو نہیں سکتا۔ لکھتے ہیں: ’’نفس پیش گوئی داماد احمدبیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو اور اگرمیں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہ ہوگی اور میری موت آ جائے گی۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ص۳۱ حاشیہ)
لیجئے جناب! اب تو معیار ثانی کی خوب زور سے تائید کر دی۔ تقدیر مبرم یعنی جس کا ہونا یقینی طورپر علم الٰہی میں قرار پاچکاہو۔ اس کیخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی وجہ سے اس کے خلاف ظہور میں آئے تو خدا تعالیٰ کا علم ناقص قرار پائے۔(نعوذ باﷲ)
اب غور طلب بات یہ ہے کہ جس امر کومرزا قادیانی نے تقدیر مبرم کہا تھا۔ اس کا ظہور ہوا یا نہیں؟یعنی احمدبیگ کا داماد مرزا قادیانی کی زندگی میں مرا یا کہ مرزا قادیانی اس کی زندگی میں داغ مفارقت دے گئے؟ ہائے!کچھ نہ پوچھئے۔ اسی سوچ ہی میں تھے کہ ملک الموت نے گردن سے آن دبوچا۔ دل کی حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں اور آنجناب راہی ملک عدم ہوئے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے: