پہلی اور دوسری پیش گوئی
پیش گوئی سے مراد وہ زبردست اور عظیم الشان پیش گوئی ہے، جس کے متعلق ’’زوجناکہا فی السمائ‘‘کا حکم لگایاگیا ہے اور جس کو منکوحہ آسمانی کے لقب سے ملقب کیاگیا۔
اس پیش گوئی کی جس قدر عظمت انتہائیہ اور اس کا جس قدر تیقن اکمل مرزا قادیانی کے قلب میں تھا، وہ ان کے ذیل کے دو شعروں سے جو کہ ایک اشتہار بعنوان ’’ایک پیش گوئی پیش از وقوع ‘‘میں درج ہیں،ظاہرہوتاہے،لکھتے ہیں:
پیش گوئی کا جب انجام ہویداہوگا
قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
جھوٹ اورحق میں جو ہے فرق وہ پیداہوگا
کوئی پا جائے گاعزت ، کوئی رسوا ہوگا
مرزا قادیانی نے پیش گوئی مذکورہ کو پورا کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے۔ اولاً تو ان کی طبع اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اس کو چاپلوسی کے الفاظ کے ساتھ پورا کریں۔ چنانچہ پہلے پہل تو اسی طریق کو اختیار کیا۔ مگر جب وہاں دال گلتی نہ دیکھی تو تہدید،ڈراور خوف دلاناشروع کردیا۔لکھتے ہیں:’’لیکن اگرنکاح سے انحراف کیا۔ تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی،وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ویسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا او ر ان کے گھر میں تفرقہ،تنگی اور مصیبت پڑی گی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
اجی خوب!ایسا دبوچا کہ کوئی پہلو باقی چھوڑا ہی نہیں۔ بتقدیر انکار اس لڑکی کو اس کے والد اور اقربا کو اور جو اس سے نکاح کرے، اس کوزورسے ڈرایا پھر ہر طرح کا جان ،مال کا خوف باہم تفرقہ اور تنگی کی مصیبت:
دھمکیاں دے کے احمد بیگ کو
اس کی دختر مانگتا ہے، زشت خو
مرزا قادیانی !شاید آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ کوئی ضعیف القلب اورضعیف الایمان ڈر کر آپ کی خواہش پورا کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔ مگر وہ صادق مومن ہستی سنکر ہمیشہ منہ پر تھوکتی رہی۔
مرزا قادیانی!اگر آپ کو اپنے الہام پر یقین ہوتا اورآپ مطمئن ہوتے تو اس خوف و تہدید دلانے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی:
مطمئن ہوتا، اگر الہام سے
اس قدر تشویش کیوں ہوتی تجھے