سرفروشی کی تمنا ہے، تو سر پیدا کر
تیر کھانے کی ہوس ہے، تو جگر پیدا کر
پانچواں معیار اوراس کی تردید
پانچواں معیار یہ ہے:’’وماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا‘‘{ہم دنیا میں عذاب نہیں بھیجا کرتے،جب تک پہلے کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں۔}
مرزائی صاحبان! اس معیار کو پیش کرکے یہ کہا کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی کے زمانے میں طاعون آیا۔ یہ ایک عذاب الٰہی تھا۔ جو مرزا قادیانی کو نہ ماننے کی وجہ سے نازل ہوا تھا لہٰذا وہ نبی تھے۔
میں پوچھتاہوں کہ یہ کہاں کاقاعدہ ہے کہ جہاں کہیں بیماری واقع ہو،وہاںنبی کا ہونا ضروری اور لابدی ہو۔انفلوئنزا آیا،ہزاروںلاکھوں گھرانے تباہ وبرباد ہو گئے اور طاعون سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہواتھا۔اس وقت کون نبی تھا؟
دوسرے یہ کہ عذاب تو منکرین کے لئے ہوتاہے، نہ کہ متبعین کے لئے۔
طاعون آیا،سینکڑوں مرزائی اس کاشکار ہوکر ہلاک ہو گئے۔ بلکہ اس نے تو خاص مرزا قادیانی کے گھر پر جاکر حملہ کیا اور ان کے ایک لڑکے کو شکار بنالے گیااور منکرین کے سرغنہ مولوی ثناء اﷲ صاحب،ڈاکٹر عبدالحکیم خان،احمد بیگ، سلطان احمد،محمدی بیگم وغیرہ کسی پر بھی عذاب کا کچھ اثر نہ ہوا۔ یہ دھوکہ دہی نہیں تواورکیاہے؟
مے پلاکر ساقیان سامری فن آب میں
کرتے ہیں، جادو سے اپنے آگ روشن آب میں
چھٹا معیار اوراس کی تردید
’’کتب اﷲ لاغلبن انا ورسلی‘‘{اﷲ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہتے ہیں۔}
اوّل تو یہ معیار ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں غلبہ کے لئے رسالت شرط ہے۔ یعنی سچا رسول ہونا لابدی اور ضروری ہے۔ مرزا قادیانی توسچے رسول نہ تھے۔
دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ غلبہ سے کیامراد ہے۔ سیاسی ہے یا مالی۔دنیوی ہے یا دینی؟
اگر سیاسی لیا جائے تو سیاست تو مرزا قادیانی کے پاس تک بھی نہیں پھٹکی اور مال وغیرہ کی زیادتی کو غلبہ نہیں کہہ سکتے اور دین میں تومرزا قادیانی کو ایسی ذلت اٹھانی پڑی کہ الامان!