متواتر تجرنے سے ایک وفادار، جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اورجس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حاکم نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اورخدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اورتحقیق اورتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اورمیری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے انگریزی سرکار کی راہ میں اپنے خون بہائے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۲۱)
کوئین وکٹوریہ کے جشن شصت سالہ کے موقع پر انعام واکرام و اعزاز کے لئے ایک درخواست پیش کی لیکن نہ کوئی انعام ملا،نہ اعزاز۔ اس پر بھی غلام احمد قادیانی کا دل کھٹا نہیں ہوا۔ ایک اور غلامانہ درخواست پیش کی جس کو ستارئہ قیصریہ کے نام سے چھاپا۔ اس میں لکھا:
’’اس عاجز کو…وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت کامل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا اندازہ بیان کر سکوں۔ اس سچی محبت او راخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جوبلی تقاریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ، ہنددام اقبالہا کے نام تالیف کرکے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا او ر مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب میں مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا… مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا اورمیرا کانشنس ہرگزاس بات کو قبول نہیں کرتا کہ ہدیہ عاجزانہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ حضور ملکہ معظمہ میں پیش ہوا ہو اور پھر میں اس کے جواب میں ممنون نہ کیاجاؤں۔ یقینا کوئی اور باعث ہے جس میں جناب ملکہ معظمہ قیصرئہ ہند دام اقبالہا کے ارادے اور مرضی اور علم کو کچھ دخل نہیں لہٰذا اس حسن ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتاہوں، دوبارہ مجھے مجبور کیاکہ اس تحفہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلاؤں اورشاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں۔اس غرض سے یہ عریضہ روانہ کرتاہوں۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۲، خزائن ج۱۵ص۱۱۲)
جہاد کی مخالفت
اس درخواست میں غلام احمدقادیانی نے اس خدمت کو بیان کیا اورجتایا کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کند کرکے برطانوی اقتدار کے لئے راستہ صاف کرنا ہی انکی زندگی کامقصد رہا