۷… ’’والمعنی اعناہ بجبریل علیہ السلام فی اوّل امرہ فی وسطہ واخرامرہ (تفسیر کبیرص۳۰۴ج۲)‘‘ {اورمعنی اس آیت کا یہ ہے کہ ہم نے اس کی امداد بذریعہ جبرئیل علیہ السلام کرائی۔ اوّل عمر میں بھی اور وسط عمر میں بھی اوراخیر عمر میں بھی۔}
۸… ’’انی قد جئتکم بایۃ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اﷲ وابری الاکمہ الابرص واحی الموتی باذن اﷲ۔ ان فی ذلک لایۃ لکم ان کنتم مومنین (آل عمران:۴۹)‘‘ {تحقیق آیا ہوں میں تمہارے پاس ساتھ معجزہ اور نشانی کے تمہارے پروردگار کی جانب سے (وہ یہ کہ) میں بناتاہوں تمہارے لئے مٹی سے مانند صورت چڑیا کے پس پھونکتاہوں میں اس میں پس ہو جاتی ہے اڑنے والی چڑیا۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اورچنگا کرتاہوں مادرزاد اندھے کو اور سفید داغ والے کواور جلاتاہوں مردوں کو اﷲ کے حکم سے۔البتہ اس کے اندر(یعنی ان معجزات میں)نشانی ہے (اﷲ کی طرف سے میری نبی ہونے کی )تمہارے لئے اگر ہو تم ایمان والے۔}
۹… ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (آل عمران:۵۹)‘‘{بیشک مثال عیسیٰ علیہ السلام کی اﷲ کے نزدیک مثل آدم کے ہے کہ پیداکیا ان کو مٹی سے اور پھر کہا کہ ہو جا پس ہوگئے۔
۱۰… ’’اجمع المفسرون علی ان ہذاالایۃ نزلت عند حضور وفد نجران علی الرسول ﷺ وکان من جملۃ شبہم ان قالوا یا محمدﷺ لما سلمت انہ لااب لہ من البشر وجب ان یکون ابوہ ھو اﷲ تعالیٰ فقال الآدم ماکان لہ اب ولام ولم یلزم ان یکون ابن اﷲ تعالیٰ فکذا القول فی عیسی علیہ السلام الخ (تفسیر کبیرص۲۴۱ج۲)‘‘{خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ آیت اس وقت اتری ہے جبکہ آنحضرتﷺ کے پاس نجر ان کا وفد آیاہواتھا اور مختلف قسم کے اعتراضات وجوابات ہو رہے تھے۔ منجملہ اعتراضوں کے ایک یہ بھی تھاکہ آپ(حضرت محمدﷺ) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بلاباپ کے ہونا تسلیم کرلیاہے اور جب کسی کا بشر (آدمی) باپ نہ ہوگا توضروری ہے اس کا باپ خدا ہو تواس آیت میں اس کاجواب دیا گیا کہ آدم علیہ السلام کا نہ باپ تھانہ ماں۔ توکیا اس سے لازم آتاہے کہ وہ بھی خدا کے بیٹے ہو جائیں۔ ہرگز نہیںچنانچہ تم(عیسائی) لوگوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔توایسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر آدمی ان کا باپ نہیں توبھی وہ خدا