و لشکر کا ہوناتودرکنار اور بچپن میں یتیم ہونے کا صدمہ بھی اٹھاچکا ہو اور لکھنے پڑھنے کی یہ حالت ہو کہ کبھی قلم ہاتھ میں نہ پکڑاہو اور کسی استاد سے ایک حرف بھی نہ سیکھاہولہٰذا مصلحت کا تقاضا یہ ہوا کہ کسی ایک قوم کو منتخب کرکے پہلے اس کو اس قوم میں بھیجا جائے تاکہ اول اس قوم کی اصلاح کرکے اس کو اپنا دست بازو بنا کر اس کے ذریعہ سے آپﷺ تمام دنیا کی اصلاح کریں۔
پس آپﷺ کی بعثت کے دو حصے ہیں۔ اولاً دبالذات اس قوم کی اصلاح اورثانیاً و بالواسطہ باقی تمام لوگوں کی اصلاح۔کیونکہ وہ قوم بمنزلہ آلہ کے ہوگی اور آلہ کا حصول مقدم ہوتاہے۔ جب تک آلہ نہ ہو کام نہیں ہوسکتا۔ایسا ہی جب تک اس قوم کی اصلاح پہلے نہیں ہوگی تو تمام دنیا کی اصلاح براہ راست ایک شخص سے ممکن نہیں ہے۔ اس انتخاب کا قرعہ فیصلہ ازلی میں قطعہ عرب پر واقع ہوالہٰذا رحمۃ للعلمین کو مکہ معظمہ میں قوم قریش میں مبعوث کیاگیا۔
باقی رہی یہ بات کہ قطعہ عرب کے انتخاب میں کیاحکمت تھی کہ تمام دنیا کو چھوڑ کر اسی قطعہ کو منتخب کیاگیا۔ تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اس میں تین حکمتیں تھیں۔
۱… اول سنت خداوندی یہ ہے کہ اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے ہر کام میں وہ راستہ تجویز فرماتے ہیں جو تمام راستوں سے زیادہ آسان و مختصر ہو۔ اس سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کی بعثت کے لئے مکہ معظمہ سے بہتر اور کوئی قطعہ زمین کا نہیںتھا۔ اس لئے کہ جس نبی کو تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہو۔ اس کی بعثت کے لئے وہ جگہ منتخب ہونی چاہئے جو تمام دنیا کے وسط میں بمنزلہ مرکز کے ہوتاکہ ہر طرف آسانی سے پہنچ سکے۔ اگر اس کو ایک کنارے پر کھڑا کیاجائے تو اس کو بہت بڑی دقت پیش آئے گی اور تمام زمین کا وسط اورمرکز بیت اﷲ ہے۔ امام رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے:’’قالواالکعبۃ سُرّۃ الارض ووسطھا‘‘{خانہ کعبہ زمین کی ناف ہے۔} لہٰذا حضورﷺ کو مکہ معظمہ میں مبعوث کیاگیا۔
۲… قطعہ عرب نعمت نبوت سے زمانہ دراز سے محروم چلاآرہاتھا اور یہود جو ملک شام میں آباد تھے،وہ آباؤ اجداد سے نعمت نبوت سے بہر یاب تھے۔ عرب کے لوگ جب ملک شام میں بغرض تجارت جاتے تھے۔ تو یہود کی طرف حسرت کی نگاہ سے اس طرح دیکھا کرتے تھے جس طرح ایک محتاج جو آباء واجداد سے محتاج چلاآرہاہو۔ان لوگوں کی طرف حسرت سے دیکھتاہے جو آباء واجداد سے اغنیاء چلے آرہے ہوں اورعرب کو اسی وجہ سے امیین (یعنی ناخواندے) کہاجاتاتھا کہ وہ زمانہ دراز سے نعمت نبوت سے محروم چلے آرہے تھے۔
پس رحمت الٰہیہ کو جوش آیا کہ ان کی سینکڑوں برسوںکی محرومی کو دور کرکے دولت نبوت