السویہ پایاجاتا۔ لیکن آپﷺ نے تو سوکھی لکڑی میں وصف حیات پیداکردیا۔جو کبھی اس سے پہلے اس میں پیدا ہی نہیں ہواتھا اور پھر حیات بھی معمولی درجہ کے نہیں بلکہ وہ حیات جس میں کمال درجہ کا ادراک و شعور ہو۔ جو سوااشرف المخلوقات(یعنی انسان) کے کسی دوسرے جانور میں پایا ہی نہ جاتاہو۔کیونکہ وہ سوکھا ستون درد فراق رحمۃ اللعالمین میں ایک سمجھدار انسان کی طرح چیخیں مار مار کر رویاجبتک کہ آپﷺ نے ممبرسے اتر کر اس کوگلے سے نہیں لگایا اور پیار و محبت نہیں کیا وہ خاموش ہی نہیںہوا اور اس قدر روتاتھا کہ خطبہ پڑھناتنگ کردیا بڑی مشکل سے خاموش ہوا۔
اس کے بعد بات یہی قابل توجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب تک مردے زندہ کرنے کا ارادہ فرما کر خاص طور پر توجہ نہیں فرماتے تھے۔ کوئی مردہ زندہ نہیںہوتاتھا۔لیکن رسول اﷲﷺ نے تو اس ستون کوزندہ کرنے کا ارادہ تک بھی نہیں فرمایا بلکہ اس سے علیحدگی اختیار فرمائی تو آپﷺ کے علیحدہ ہونے کی وجہ سے وہ خود بخودزندہ ہوکر درد فراق محمدیﷺ میں چیخ اٹھا۔
دوسرا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کا گارے کے جانور بناکراڑاناتھا۔ گارے کو لے کر پہلے جانور کی شکل بناتے تھے۔اس کے بعد اس میں پھونک مارتے تھے۔ تو وہ خداوند کی قدرت سے زندہ ہوکر اڑ جاتاتھا۔غرض اس کو کم از کم شکل میں تو زندوں سے مناسبت حاصل ہو جاتی تھی۔ لیکن اس سوکھی لکڑی کو تو صورت و شکل میں بھی زندوں سے مناسبت نہیں حاصل ہوئی تھی۔ بلکہ اپنی اصلی شکل میں رہ کر زندہ ہوگئی لہٰذا یہ زیادہ مستبعد ہے اورپھرگارے کے جانوروں میں صرف معمولی درجہ کا حیات پیدا ہوتاتھا۔ مگر اس سوکھے ستون میں علاوہ حیات کے اعلیٰ درجہ کا ادراک و شعور بھی پیدا ہو گیا تھا ۔جس کی تشریح ابھی گزری ہے۔ تو صرف حیات کے پیدا ہونے سے یہ زیادہ مستعبد ہے۔
تیسرا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کا تھا بیماروں کا اچھاکرنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہتے ہی خداوندتعالیٰ بیماروں کواچھاکردیتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں حضورﷺ کے ہاتھ لگاتے ہی ٹوٹی ہوئی ٹانگ فوراً صحیح ہو جاتی ہے اوربگڑی ہوئی آنکھ آپﷺ کے ہاتھ لگاتے ہی بالکل اچھی ہو جاتی ہے۔ یہ فقط یوں ہی بیماروں کے اچھے ہوجانے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ وہاں تو اس سے زیادہ نہیں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے سے بیماروں کو اچھاکردیا تو اس میں صرف قدرت خداوندی کااظہار ہے۔ کچھ برکت جسمانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں نہیں پائی جاتی اوریہاں دونوں موجود ہیں۔کیونکہ فاعل حقیقی تو یہاں بھی خداوندتعالیٰ ہی ہے لہٰذا قدرت کا اظہار یہاں بھی ہوا لیکن بواسطہ جسم محمدی(ﷺ) اس قدرت کااظہار کرنا اس بات کی دلالت کرتا