۳… کسی نبی کے بعد دوسرے نبی کے آنے کی ضرورت دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی صیغہ کی تعلیم غیر مکمل رہ گئی ہو تو اس کی تکمیل کے لئے کوئی دوسرا نبی بھیج دیا جاتاہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم میں تحریف ہوگئی ہو۔ دنیامیںصحیح تعلیم باقی نہ رہی ہو تو دوسرا نبی صحیح تعلیم دے کر بھیج دیا جاتاہے تاکہ لوگ صحیح تعلیم سے محروم نہ رہیں۔
لیکن رسول اﷲ ﷺ کی تعلیم کے بعد نہ کوئی صیغہ تعلیم غیر مکمل رہا ہے۔ جس کی تکمیل کی غرض سے کسی دوسرے نبی کو بھیجا جائے اور نہ آپﷺ کی تعلیم میں تحریف واقع ہوئی ہے اور نہ قیامت تک ہو گی تاکہ کسی دوسری نبی کو بھیج کرصحیح تعلیم سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہو۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف کو تحریف سے قیامت تک محفوظ رکھنے کا اعلان فرمادیاہے۔ جو سورہ حجر کی آیت :’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘میں مذکور ہے۔یعنی تحقیق ہم نے ہی اتارا ہے ذکر (یعنی قرآن شریف) اور ہم ہی ہیں البتہ اس کے نگہبان۔تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال کا مشاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف میں آج تک ایک حرکت کی تبدیلی بھی نہیں ہوئی۔ حروف وکلمات کی تبدیلی تو درکنار رہی۔ تو اب آپ غور فرمائیں کہ آپﷺ کے بعد کسی نبی کے بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔
۴… آپﷺ کے بعد مستقل نبی کا نہ آنا تو فریق مخالف کے نزدیک بھی مسلم ہے۔ متنازع فیہ تو غیرمستقل نبی کا آنا لہٰذا اس کے متعلق فریق مخالف سے چند امور دریافت طلب ہیں۔
الف… یہ مسئلہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے اس قابل نہیں ہے کہ اس میں صرف رائے زنی سے کام لیا جائے۔ بلکہ اس کے اثبات کے لئے نصوص قطعیہ کا ہونا ضروری ہے لہٰذا کوئی ایسی نص شرعی مرحمت فرمائیے جو نبوت غیر مستقلہ کے عدم انقطاع پر صراحتہً دال ہو اور خیر القرون میں اس کا اس دعوے کے لئے دلیل ہونا تسلیم بھی کیاگیاہو۔ اس کے دلیل ہونے کا دارومدار صرف آپ کا اجتہاد نہ ہو۔
ب… نبوت غیر مستقلہ کے ملنے کا دارومدار کیا چیز ہے۔ اس کی تعیین و دلیل تعیین دونوں کے بیان کرنے کے بعد بتلائے کہ وہ چیز صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین میں بھی تھی یا نہیں۔ اگر تھی تو ان کونبوت کیوں نہیں ملی اور اگر نہیں تھی تو یہ بات اجماع امت کے خلاف ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا تمام امت میں افضل ہونامجمع علیہ ہے اورصورت مفروضہ میں غیر صحابی کا صحابہ سے افضل ہونا لازم آتاہے۔ اس لئے کہ نبی، غیر نبی سے افضل ہوتاہے لہٰذا یہ شق