بھی پکڑ کر ٹٹول سکتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے بھی ایک دوسرے کی رضا وغیررضا کو معلوم نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ دوسرا خود نہ بتلائے۔خواہ سینہ سے سینہ بھی ملالے۔ بلکہ دل کو چیر کر دیکھ لے حتیٰ کہ دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے دانتوں سے چبا لیا جائے تو پھر بھی دوسرے کے دل کی بات ہرگز معلوم نہیں ہو سکتی۔تاوقتیکہ وہ خود نہ بتلائے۔
توبھلا پھر خداوند تعالیٰ کے دل کی بات بغیر اس کے بتلائے ہوئے کیونکر معلوم ہو سکتی ہے؟ حالانکہ وہ ایسا لطیف ہے کہ آج تک کسی کو دکھائی نہیں دیا اور نہ وہ ہاتھ میں آنے والی چیز ہے اور نہ انسان کو ا س کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد ہے۔ توپھر اس کے دل کی بات بغیر اس کے بتلائے ہوئے انسان کیونکر معلوم کرسکتاہے۔چنانچہ اسی کے متعلق ارشاد ہے ۔ سورئہ بقرہ کی اس آیت میں :’’ولایحیطون بشئی من علمہ الابماشائ‘‘{اور موجودات اس کے معلومات میں سے کسی چیز کو اپنے احاطہ علمی میں نہیں لاسکتے،مگر جس قدر وہ چاہے}لہٰذا اس کی رضا وغیر رضا معلوم کرنے کے لئے اس کے ارشاد کا انتظا ر ضروری ہوگا۔
تیسرامقدمہ
خداوندتعالیٰ کی شان عالی کو مدنظررکھتے ہوئے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنی رضا و غیر رضا ہر شخص کو خود بتلائے او رہر کس وناکس سے منہ لگائے۔
دلیل اس مقدمہ کی یہ ہے کہ شاہان دنیا کودیکھو کہ وہ ایک معمولی سی عظمت کی وجہ سے اپنی مرضی وغیر مرضی کی بات اپنے بنی نوع سے بھی براہ راست نہیں کہتے۔ حالانکہ ہر طرح سے اتحاد ہے۔ صرف معمولی سی عظمت حاصل ہے۔ وہ بھی چند روزہ مستعار اس خدا کی دی ہوئی مگر اتنی سی بات پر بھی وہ اپنی رضا وغیر رضا ہر ایک کو ہرگز نہیں بتاتے پھرتے۔بلکہ مقربان بارگاہ سے فرما دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو سنادیتے ہیں یا بذریعہ اشتہار و منادی اعلان کرادیتے ہیں۔ توبھلا خداوند جوتمام بادشاہوں کا بادشاہ اور بادشاہی بھی ایسی کہ جو ازلی ابدی ہے۔ وہ کیا دنیا کے بادشاہوں سے بھی کم ہے کہ ہر کسی کو خود کہتا پھرے گااور ہرکس و ناکس کو منہ لگائے گا۔ وہ بھی ایسا ہی کرے گا کہ اپنے مقربین درگاہ کے ذریعہ سے اپنی رضا و غیر رضا کی اطلاع دے گا۔ اس کے متعلق ارشاد ہے۔ سورہ نحل کی اس آیت میں :’’ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشاء من عبادہ‘‘{وہ اﷲ فرشتوں کو وحی میںاپنا حکم دے کر اپنے بندوں میں سے جس پر چاہیں نازل فرماتے ہیں۔ }
یعنی انبیاء علیہم السلام پر اورسورہ مومن کی آیت میں :’’یلقی الروح من امرہ علی