کوطلاق دینے کا ارادہ کرنے سے متعلق، امام ماوردی کہتے ہیں ،کہ یہ واقعات ،تخییر سے پہلے کے ہیں ۔ ایسے ہی واقعۂ افک میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،اپنی زوجۂ محترمہ[حضرت عائشہؓ] کو علیحدہ فرمانے کا مشورہ فرمایا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا:’’لَم یُضیّق اللّٰہُ عَلیکَ، النسائُ کَثِیْرۃٌ سِوَاہَا‘‘[ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگی میں نہیں ڈالا،بلکہ ان کے علاوہ اوربھی بہت سی عورتیں ہیں ]۔
ممکن ہے کہ یہ بھی، تخییر سے پہلے کاواقعہ ہو،امام ابن جوزی نے اس کی صراحت کی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ھ میں ، خیبرکے قیدیوں میں سے، حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب کومنتخب فرمایااوران سے نکاح فرمایا ۔ ماوردی نے اس بات کا دعویٰ کیاہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ ؓسے نکاح فرمانے کا واقعہ، آیت کے نزول کے بعدکاہے۔ایک قول یہ نقل کیاگیاہے کہ وہ حرمت، اللہ تعالی کے اس ارشاد سے منسوخ ہوگئی تھی۔
’’إنَّا أحْلَلْنَا لَکَ اَزوَاجَک…الآیۃ (۱)[ہم نے حلال رکھی ،تجھ کو تیری عورتیں ]
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
’’مَامَاتَ رَسُولُ اللّٰہ صَلّی اللّٰہ عَلیہِ وَسَلَّم حَتّی أحَلَّ لَہٗ النِّسَاء ‘‘(۲)
رسو ل اللہ ا کی وفات نہیں ہوئی تھی،مگریہ عورتیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال ہوگئی تھیں ۔(۳)
------------------------------
(۱) الاحزاب :آیت:۵۰
(۲) أخرجہ أحمد رقم: ۲۵۳۴۳۔۲۵۵۲۸۔۲۴۰۱۹…[دارالحدیث ،القاہرۃ ۱۴۱۶ھـ] والترمذي۲/۱۵۶ أبواب التغیر(۵/۳۳۲) وقال حسن صحیح رقم: ۳۲۱۶۔[دارالکتب العلمیۃ، بیروت] والحاکم (۲/۴۳۷) فی کتاب التفسیر۔[دارالمعرفۃ،بیروت]
(۳) رواہ الشافعي وأحمد والترمذي وقال حسن صحیح وصححہ ابن حبان والحاکم۔