جو تفسیر کی گئی ہے۔ وہ بڑے زور سے تصریح بالا کی مؤید ہے۔ ’’خاتم النّبیین‘‘میں دو لفظ ہیں۔ ’’خاتم‘‘ اور ’’النّبیین‘‘ قرآن میں لفظ ’’خاتم‘‘ دو طرح سے آیا ہے۔ یعنی جناب رسول اﷲ ﷺ کی زبان مبارک سے اکثر پڑھنے والوں نے خاتم کی ت کو زبر سے پڑھتے سنا ہے اور بعض نے زیر سے پڑھتے سنا ہے۔ یعنی بعض نے بفتح پڑھا ہے اوراکثر نے بکسر پڑھا ہے۔
جیسا کہ تفسیر فتح البیان وغیرہ سے ظاہر ہے۔ کلام عرب میں خاتَم،خاتِم کے چند معنے آتے ہیں۔ مہر کو بھی خاتِم کہتے ہیں اور انگوٹھی کو بھی اورآخری کوبھی۔ مگر عرب کے بول چال میں جب یہ لفظ کسی جماعت کی طرف سے مضاف ہو۔ تو اس حالت میں اس کے ایک ہی معنے ہوتے ہیں۔ مثلاً خاتِم القوم جب کہیں گے تو اس کے یہی معنی ہوںگے کہ ساری قوم کے آخر میں آنے والا اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن پاک میں لفظ’’خاتَم النّبیین‘‘ وارد ہے۔ یعنی لفظ خاتم النّبیین کی طرف مضاف واقع ہوا ہے۔ تو اس کے معنے آخر النّبیین ہی ہوںگے۔ دوسری معنے نہیں ہو سکتے۔
چنانچہ کتاب لسان العرب جو اہل عرب کے نزدیک نہایت معتبر اور مستند لغت ہے۔ اس میں محارہ عرب سے اس کے معنی آخر کے بیان کرکے قرآن مجید کی یہی آیت نقل کی ہے جو زیر بحث ہے۔ اس میں خاتم النّبیین کے معنی اس طرح بیان کئے ہیں’’اے اخرھم‘‘یعنی تمام انبیاء کے آخر میں آنے والے۔ اس کے سوا کوئی دوسرے معنی نہیں کئے۔ اس کی پوری عبارت ملاحظہ ہو:
’’ختام القوم خاتمہم وخاتمہم اخرھم ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہ و علیہم الصلوٰۃ والسلام و الخاتم و الخاتم من اسماء النبی ﷺ و فی التنزیل العزیز ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النّبیین ای اخرھم (لسان العرب حصہ ۱۵ مطبوعہ مصر ص۵۵)‘‘{ختام القوم اور خاتِم القوم (ت کی زیر) اور خاتَم القوم (ت کی زبر) آخر قوم کو کہتے ہیں(یعنی جب لفظ ختام، خاتم اورخاتَم کو ایک جماعت کی طرف مضاف کریں تو اس کے معنی آخر اور انتہا کے ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور خاتِم اور خاتَم دونوں آپ کے نام ہیں اورقرآن شریف میں جو ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النّبیین‘‘آیا ہے وہاں خاتم النّبیین کے معنی آخرالنّبیین کے ہیں۔}
اسی طرح قاموس، تاج العروس، مجمع البحار اور منتہی الارب میں بھی خاتم النّبیین کے