M
اسلام و مرزائیت
’’الحمد ﷲ وکفٰی وسلام علے عبادہ الذین اصطفے۔امابعد‘‘ ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت سی مختلف الخیال جماعتیں آباد ہیں۔ بعض میں فروعی جزوی اختلاف ہے اوربعض میں اصولی۔ پھر اصولی اختلاف رکھنے والے فرقوں میں باہمی فرق ہے۔ بعض فرقے بالکل ہی اسلام کے اصول قطعیہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں اوربعض اصل الاصول کو مان کر ان کے ماتحت اصول میں مختلف ہیں۔ عوام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری واقفیت نہیں رکھتے عموماً ان سب جماعتوں اور فرقوں کو ایک ہی درجہ میں سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلام اورمسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچتا ہے۔ کیونکہ جس طرح جزوی اورفروعی اختلاف کی بناء پر آپس میں لڑناجھگڑنا اور تشدد برتنا مذموم وناجائز ہے اسی طرح اصولی اختلاف کو نظر انداز کرکے ایسی فرقوں کو جن کے عقائد، اسلامی عقائد اورقرآن وحدیث کی تعلیمات کے قطعاً خلاف ہوں، مسلمان سمجھنا اس سے زیادہ مضر اورمذموم ہے۔
مرزا غلام احمدقادیانی مدعی نبوت نے جس فرقہ کی بنیاد پنجاب میں ڈالی ہے۔ وہ اسی قسم سے ہے کہ اس کے عقائد کسی طرح عقائد اسلامیہ پر منطبق نہیں ہوسکتے۔ لیکن چونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اورظاہر میں نماز،روزہ اورتلاوت قرآن میں عام مسلمانوں کے ساتھ شریک نظر آتے ہیں۔ اس لئے عام مسلمان اوربالخصوص جدید تعلیم یافتہ حضرات فریب میں آجاتے ہیں۔
علماء اگر ان کو متنبہ کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ علماء کا اختلاف تو ہمیشہ سے چلاآیا ہے اور بعض تو خود ان حضرات علماء پر الزام رکھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ لڑتے رہتے ہیں اور کفر کے فتویٰ دینے کی ان کو عادت ہوگئی ہے۔ اس لئے احقر کے اساتذہ نے بالخصوص استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سہول صاحبؒ بھاگل پوری سابق مدرس دارالعلوم دیوبند نے ایک ایسا رسالہ لکھنے کا حکم دیا جس میں ہم اپنی طرف سے کچھ نہ لکھیں بلکہ عقائد مرزائیہ کو عقائد اسلامیہ کے مقابلہ میں رکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ ہر عقل اورانصاف والا خود بخود یہ فیصلہ کرسکے کہ اس فرقہ کے عقائد اسلامی عقائد سے کس قدر متضاد واقع ہوئے ہیں اورحضرات علماء اورتمام اسلامی فرقے کس مجبوری کی وجہ