۱… یاد کرنے میں آسانی ورنہ کتاب ضخیم کا بے لکھے پڑھے آدمی کو دفعتہ یاد کرنا عادۃً دشوار ہے اوراس کو دیکھ کر طبعیت کا پریشان ہونا امر طبعی ہے اورتدریج کی صورت میں دل قوی رہتا ہے۔
۲… جب کفار کوئی اعتراض یا نا گوار معاملہ کرتے تب ہی آپﷺ کی تسلی نازل ہو جاتی اس میں زیادہ تقویت قلب ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک کتاب آدمی کے پاس ہو اور وقت پر اس میں سے مضمون تلاش کرکے کام میں لائے۔
۳… بار بار پیغام خداوندی کا آنا اور سلسلہ مراسلت کا جاری رہنا شہادت ہے معیت خداوندی کی جو مدار اعظم ہے تقویت قلب کا وامثال ذالک۔
اعتراض
ممکن ہے کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ گو بے لکھے پڑھے آدمی کا یک دم کتاب ضخیم کو یاد کر لینا عادتاً دشوار ہے۔ لیکن خداوند تعالیٰ جب انبیاء علیہم السلام کو معجزات عطاء فرماتے ہیں۔ جو عادت کے خلاف ہوتے ہیں۔ تو ایک معجزہ یہ بھی عطاء فرما دیتے کہ حضورﷺ کو کتاب یک دم یاد کرا دیتے اور اگر خواہ مخواہ تدریجاً ہی نازل فرمانی تھی تو اتنی لمبی مدت کیوں لگائی۔ بلکہ روزانہ ایک ایک رکوع نازل کرکے ایک دوسال میں قصہ ختم کردیتے تو اس صور ت میں بھی آسانی سے یاد ہو سکتا تھا۔
جواب
تقویت قلب کے جو وجوہ ثلثہ بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے پہلی وجہ تو بیشک اعتراض کی دونوں صورتوں میں حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن دوسری اورتیسری وجہ تقویت کی دونوں صورتوں میں فوت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سلسلہ اعتراضات تو آپﷺ کی تمام عمر تک جاری رہے گالہٰذا خداوند تعالیٰ کی طرف سے شہادت معیت کی بھی تمام عمر ضرورت رہے گی۔ اس لئے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ سلسلہ مراسلت کا بھی تمام عمر جاری رہے۔اس لئے تئیس برس میں قرآن شریف کی تکمیل ہوئی اور یہ معنی:’’ورتلناہ ترتیلا‘‘کے صاحب کشاف نے کئے ہیں تو گویا: ’’ورتلناہ ترتیلا‘‘کے اضافہ کرنے سے اعتراض کی دونوں صورتوں کے جواب کی طرف اشارہ ہوگیا۔ جس کا حاصل یہ ہوا کہ اعتراض کی دونوںصورتوں میں تقویت کے بعض وجوہ فوت ہوجاتے ہیں لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ تئیس سال کی مدت میں نزول قرآن شریف کو پورا کیا جائے۔