کرتے اورناجائز طریقہ سے بدکاری کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کا کمال نہیں شمار کیاجاتا۔ ایسا ہی اگر عیسیٰ علیہ السلام نے بوجہ کمزوری قوت رجولیت کے شادی نہ کی ہو تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی طاقت کے ہوتے ہوئے صبر کر کے دکھائے جیسا کہ حضورﷺ نے دکھایا۔کیونکہ آپﷺ نے پچیس سال تک کوئی شادی نہیں کی۔جو نہایت ہی جوش جوانی کا زمانہ ہے۔ حالانکہ آپﷺ میں چالیس آدمیوں کی طاقت تھی اور اس پر طرہ یہ ہے کہ کسی دشمن نے بھی آپﷺ پر کبھی بدنگاہی کا الزام بھی نہیں لگایا۔ بدکاری تو درکنار رہی کمال اس کو کہتے ہیں اور پھر پچیس سال کے بعد بھی شادی کی تو ایک بیوہ عورت سے۔جو علاوہ دو دفعہ بیوہ ہونے کے آپﷺ سے عمر میں بھی بڑی تھیں۔ یعنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا۔ اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا اوران کی رحلت کے بعد بھی جس قدر نکاح کئے، بیوہ عورتوں سے ہی کئے۔ سوا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے۔ حالانکہ آپ ﷺ کو اعلیٰ درجہ کی خوبصورت دوشیزہ عورتیں مل سکتی تھیں۔ مگرآپﷺ کا مقصد نکاح کرنے سے مقصد چونکہ شہوت رانی نہیں تھا۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ذریعہ دین کا وہ حصہ مکمل ہو جائے جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس مقصد کے لئے نوجوان لڑکیوں سے تجربہ کار عورتیں زیادہ مفیدتھیں۔ الحاصل عیسیٰ علیہ السلام کا شادی نہ کرنا افضلیت کی دلیل نہیں ہے۔
اعتراض سوم
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات بڑے ہیں بہ نسبت معجزات حضرتﷺ کے لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام افضل ہیں رسول اﷲﷺ سے۔
جواب
معجزات کی تشریح جواوپر گزرچکی ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد سمجھدار آدمی تو اس گفتگو ہی کو فضول سمجھتاہے کہ کس نبی کے معجزات بڑے ہیں اور کس کے چھوٹے۔ لیکن معاندین چونکہ انصاف کو بالائے طاق رکھ کر بات کرتے ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ ان کو تسکین نہ آئے لہٰذا قدرے اس بات کی تشریح کرتاہوں کہ معجزات رسول اﷲﷺ بہ نسبت معجزات باقی انبیاء علیہم السلام کے کیا شان امتیازی رکھتے تھے۔معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک معجزات علمی دوسرے معجزات عملی لہٰذا ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتاہوں۔