قاضی صاحب… مولوی صاحب میں اس آخری فقرہ سے اتفاق نہیں کرتا۔اس کی منطق غلط ہے۔
نووارد… (آنکھوں ہی آنکھوں میں قاضی صاحب کے قول کی داد دے کر اورمسکراکر)ہاں بابو صاحب یہ سوال توختم ہوگیا۔اب عرض یہ ہے کہ اس کو ابن مریم مرگیا حق کی قسم صاحب کے تنہائی میں پیش نہ کیجئے گا۔بلکہ اس وقت جب وہ چار سمجھ دار آدمیوں میں بیٹھے ہوں تاکہ ٹال مٹال نہ کر سکیں۔
بابوصاحب… (ماتھے پرہاتھ مارکر)افسوس صد افسوس ،ہائے افسوس!ہم اس شخص کے الہاموں کے بھروسہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ اور بہشتی مقبرہ کو ہر قسم کی رحمتوں کا جائے نزول مانتے ہیں۔ مولوی صاحب تمام عمر کی حرام حلال کی کمائی ہم نے ان کی نذرکردی اورآج اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ تم نے وہاں وہ کون سی چیز پائی جو پہلے تمہیں حاصل نہ تھی۔ توہمارے پاس اس کا جواب نہیں۔
نووارد… بابوصاحب آپ بھی غضب کرتے ہیں۔مرزا قادیانی نے اتنی دماغ سوزی کرکے یہ مذہب آپ کے کسی فائدہ کے لئے ایجاد کیا تھا۔ یا اپنے۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب آپ کے اس لفظ ’’دماغ سوزی‘‘ سے ایک مسئلہ حل ہو گیا۔ آپ نے کہیں کہا ہے کہ مرزا قادیانی نے دجال تین قسم کے اشخاص کا نام رکھا ہے۔ اول پادری، دوم کلیں ایجاد کرنے والے اور سوم متمول لوگ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مرزا قادیانی نے پادریوں کو قتل کردیا یعنی دلائل سے ان پرغلبہ پالیا۔ تب بھی یہ ثابت ہوگا کہ مرزا قادیانی نے پونے حصہ دجال کا قتل کیا۔ میں آپ سے پوچھتاہوں کہ کیا مرزا قادیانی الہام ایجاد کرکے اور دولت سے مالا مال ہوکر دجال کے باقی دو حصوں پرفوقیت نہیں پاگئے۔ قہقہہ۔
اس پر ہر دو نے اٹھ کر اجازت طلب کی۔ بابوصاحب اوربیوی نمناک آنکھوں کے ساتھ ڈیوڑھی تک انہیں رخصت کرنے آئے اورپھر وہاں سے وعلیکم السلام اور حوالت بخدا کی بوچھاڑوں میں مرخص ہوئے۔ ہاں بابوصاحب نے ایک فرمائش کی کہ صدرالدین صاحب اور محمد حسین کو میراسلام علیک کہنا اور گاموں مکان تک ساتھ چلنے پر اصرار کرتاہوا کوچہ کے اخیر سے واپس ہوا۔