تھی۔ (التقریروالتحبیر: ۳/۳۴۵)
مگر علامہ شامی ؒ نے منہیہ میں لکھا ہے کہ اس کی مثال بکثرت موجود ہیں۔ امام اعظم ؒ کے تلامذہ نے بعض اصول میں اور بہت سی فروع میں امام صاحب کی مخالفت کی ہے پس ابن المنیر کا اس کو مستبعد قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ خود علامہ ابن امیر حاج نے تحریر کی شرح میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(خلاصہ جواب یہ ہے کہ مجتہد فی المذہب مفتی در حقیقت مجتہدِ مطلق ہوتاہے، اس لیے اس پر دلیل اور اس کا حال جاننا ضروری ہے، مگر چوں کہ اس نے نیا مذہب شروع نہ کر نے اور دوسرے مجتہدِ مطلق کی تقلید کر نے کا التزام کیا ہے، اس لیے اس کا شمار مقلدین میں کیا جاتا ہے، مگر اس کی حیثیت عام مقلدین سے ممتاز ہے۔)
قولِ امام کا دوسرا مطلب: امام اعظم کے قول میں جو دواحتمال تھے ان میں سے دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس ارشاد کا مطلب ہے: امام کے اصولوں سے تخریج واستنباط کر کے امام کے قول کے مطابق فتویٰ دینا۔‘‘
(یعنی امام کا قول کس اصل پر مبنی ہے؟یہ بات جان کر پھر اس قول پردوسری جزئیات کومتفرع کرنا) علامہ ابن الہمام ؒ التحریر میں اور ابن امیر حاج ؒ اس کی شرح التقریر والتحبیر میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: ’’غیر مجتہد مفتی کسی مجتہد کے مذہب کے مطابق اس کے اصول پر تخریج کر کے فتویٰ دے سکتا ہے۔ اس کے مذہب کو بعینہ نقل کرنے کا مسئلہ زیرِ بحث نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ مجتہد کے مبنیٰ سے واقف ہو، یعنی وہ مجتہد کے احکام کے مآخذ کو جانتا ہو، ان میں غور و فکر کر نے کی صلاحیت رکھتا ہو، مجتہد کے قواعدپر تفریع کرنے پر قادرہو، فرق وجمع پر اس کو پوری قدرت حاصل ہو، اور اس بارے میں مباحثہ کر سکتا ہو۔ غرض اسے پوری دسترس حاصل ہو، کہ وہ نئی جزئیات کے احکام جوصاحبِ مذہب سے مروی نہیں ہیں، امام کے اصولوں سے مستنبط کرے، اور ایسا ہی شخص مجتہد فی المذہب کہلاتا ہے، اور جو شخص ایسی صلاحیتوں کا مالک نہیں ہے اس کے لیے فتویٰ دیناجائز نہیں ہے۔ ‘‘
اور ہندی کی شرح بدیع میں ہے کہ:
’’ہمارے اصحاب میں سے اور دوسرے حضرات میں سے بہت سے محققین کے نزدیک یہی قول مختار ہے، کیوں کہ ہمارے ائمہ میں سے امام ابویوسف اور امام زفر ؒ وغیرہما سے یہ قول مروی ہے کہ کسی کے لیے بھی ہمارے قول پر فتویٰ دینا جائز نہیں ہے جب تک وہ جان نہ لے کہ ہم نے کہاں سے قول لیا ہے؟‘‘
اور بعض حضرات نے یہی بات بایں الفاظ کہی ہے کہ جس کوا قوال یاد ہوں اور دلائل نہ جانتا ہو تو اس کے لیے مختلف فیہ مسائل میں فتویٰ دیناجائز نہیں ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی مجتہد موجود نہ ہو تو فتویٰ دینادرست ہے۔ اور اس