آپ کو ربیع الآخر۳۳۴ھ میں بحالتِ سجدہ قتل کیا گیا۔ میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ حاکم شہید کی تصنیفات میں مختصرمنتقی اور اشارات وغیرہ بھی ہیں، اور سر خسی کا یہ قول کہ: ’’پھر میں نے مختصر کی شرح کر نا مناسب خیال کیا ‘‘اس پر دلالت نہیں کر تا کہ سر خسی کی مبسوط کا فی کی نہیں، بلکہ مختصر کی شرح ہے، جیساکہ اشباہ کے حاشیے میں علامہ خیر الدین رملی کو وہم ہواہے۔ کیوں کہ کافی بھی مختصر ہے، پہلے یہ بات آچکی ہے کہ اس میں ظاہرِ روایت کی کتابوں کی تلخیص کی گئی ہے۔ اور غایۃ البیان میں بکثرت کافی کے اقتباسات اس جملے سے شروع ہوئے ہیں۔ قال الحاکم الشھید في مختصرہ المسمٰی بالکافي اس سے معلوم ہواکہ کافی کو بھی مختصر کہتے ہیں۔ واﷲ اعلم
متعدد شمس الائمہ: علامہ شامی نے منہیہ میں ایک فائدہ لکھا ہے کہ متعدد علمائے احناف شمس الائمہ کے لقب سے متعارف ہوئے ہیں۔ مثلاً شمس الائمہ حلوانی اور ان کے شاگرد شمس الائمہ سرخسی اور شمس الائمہ محمد بن عبدالستار کردری 1 اور شمس الائمہ بکر بن محمد زرنجری 2 اور ان کے صاحب زادے شمس الائمہ عمادالدین عمر بن بکر زرنجری 3 اورشمس الائمہ بیہقی 4 اور شمس الائمہ اوزجندی جن کانام محمود 1 ہے۔
بار ہاآپ کو شمس الاسلام کے لقب سے بھی ملقب کیا جاتا ہے یہ فائدہ الدرروالغرر کے حاشیہ نوح 2 آفندی فصل المبہر میں ہے)
القاب میں مبالغہ 3 : مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒ نے فوائدِ بہیہ کے آخر میں لکھا ہے کہ:
عراق کے فقہا میں عام طورپر القاب میں سادگی تھی۔ وہ کاروبار محلّہ، قبیلہ یا گائوں کی طرف نسبت کرنے پر اکتفا کیا کر تے تھے، جیسے جصاص (گچ والا)، قدوری (ہانڈی والا)، طحاوی (طحاگاؤں کا باشندہ)، کرخی (مقامِ کرخ کا باشندہ)، صمیری (صمیرہ کاباشندہ)، اور خراسان اور ماوراء النہر میں عام طور پر القاب میں مبالغہ کیا جا تا تھا، اور دوسروں پر ترفع ظاہر کیاجاتاتھا۔ جیسے شمس الائمہ، فخرالاسلام، صدر الاسلام، صدر جہاں، صدر الشریعہ وغیرہ، اور یہ صورت زمانہ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی۔ پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے۔
ابو عبداﷲ قرطبی 4 اسماء اﷲ الحسنیٰ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
قرآن وحدیث سے اپناتزکیہ کر نے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے علما نے فر مایا ہے کہ مصر کے علاقے میں اور دیگر بلادِعرب وعجم میں جورواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہیں جو تزکیہ اور تعریف پر دلالت کرتی ہیں، وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے،