وہ مسائل دریافت کیے گئے اور ان کے بارے میں متقدمینِ اہلِ مذہب کی کوئی روایت ان کو نہیں ملی۔
بعد کے یہ مجتہدین صاحبین ؒ کے تلامذہ، پھر ان کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ ہیں۔ جن کی تعداد بہت ہے، ان کے احوال جاننے کے لیے فقہائے احناف کی طبقات کی کتابوں 3 کی طرف اور عام تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ مثلاً صاحبین کے تلامذہ یہ ہیں: عصام بن یوسف، ابنِ رستم 4 محمد بن سماعہ ابو سلیمان جوزجانی اور
ابو حفص بخاری اور جو حضرات ان کے بعد ہیں وہ یہ ہیں: محمد بن سلمہ 1 محمد بن مقاتل 2 نصیر بن یحییٰ 3 اور ابو نصرمحمد بن سلام ؒ 4
فائدہ: کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ متاخرین مجتہدین کے سامنے ایسے دلائل آتے ہیں اور ایسے اسباب ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ اصحابِ مذہب کی مخالفت کرتے ہیں۔ 5 اور ہماری معلومات میں سب سے پہلے وہ کتاب جس میں ان مشائخ کے فتاویٰ جمع کیے گئے ہیں فقیہ ابواللیث سمرقندی ؒ کی کتاب النوازل ہے، پھر مشائخ نے اور کتابیں جمع کی ہیں جیسے ناطفی 6 کی مجموع النوزل والواقعات اور
صدرِ شہید 1 کی واقعاتِ حسامیہ۔
پھر متاخرین نے ان سب کو (مسائل الاصول، مسائل النوادر اور مسائل النوازل کو)اس طرح رلا ملا کر لکھا ہے کہ ان میں کوئی امتیاز باقی نہیں رکھا۔ جیساکہ فتاویٰ قاضي خان اور خلاصۃ الفتاویٰ 2 وغیرہ میں کیا گیا ہے، اور بعض حضرات نے تینوں قسم کے مسائل میں امتیاز باقی رکھا ہے۔ مثلاً رضی الدین سر خسی 3 کی کتاب المحیط میں پہلے مسائل الاصول کو پھر نوادر کو پھر فتاویٰ کو ذکر کیاہے۔ ان کا طریقہ بہت ہی عمدہ ہے۔
مبسوط کے نسخے اور شروح: اور یہ بھی جان لیں کہ امام محمد ؒ کی مبسوط کے نسخے (روایتیں) متعدد ہیں۔ ان میں مشہور نسخہ ابو سلیمان جوزجانی کا ہے۔ مبسوط کی بہت سے متاخرین نے شرحیں لکھی ہیں، مثلاً شیخ الاسلام بکرنے جو خواہرزادہ1 سے معروف ہیں۔ آپ کی شرح بڑی مبسوط کہلاتی ہے، اور شمس الائمہ حلوانی نے اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے، ان سب کی مبسوطیں امام محمد ؒ کی مبسوط کی شرحیں ہیں۔ ان شارحین نے شرح کی عبارت امام محمد ؒ کی مبسوط کی عبارت کے ساتھ ملا کر لکھی ہے۔ یہی طریقہ جامعِ صغیر کے شارحین نے اختیار کیا ہے۔ مثلاً فخر الاسلام بزدوی اور قاضی خان وغیرہ نے۔ چناں چہ کہا جاتا ہے کہ ’’قاضی خان نے یہ بات جامعِ صغیر میں ذکر کی ہے ‘‘اور ان کی مراد جامع صغیر کی شرح ہوتی