ایک آدھ کتاب دیکھ کریاغیرواضح کتابوں سے فتویٰ دیناجائزنہیں: میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ جب یہ بات معلوم ہوگئ کہ مختلف فیہ اقوال میں سے راجح قول کی پیروی واجب ہے، اور ترجیح دینے والوں کا حال بھی معلوم ہوگیا تو اب یہ جاننا چاہیے کہ ان فتووں کا کوئی اعتبار نہیں جو ہمارے زمانے کے اکثرمفتی صاحبان زمانہ ما بعد میں لکھی ہوئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کودیکھ کردے دیا کرتے ہیں۔ خاص طور پر غیر واضح کتابوں سے فتویٰ دینا درست نہیں۔ مثلاً قہستانی کی شرح نقایہ علامہ حصکفی کی درمختار، ابن نجیم مصری 1 کی الاشباہ والنظائر اور اس قسم کی دوسری کتابیں۔ کیوںکہ یہ کتابیںبہت زیادہ اختصارکی وجہ سے چیستان سی بن گئی ہیں، نیزان کتابوں میں بہت جگہ دوسری کتابوں سے عبارتیں نقل کرنے میں کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہیں، اور ان کتابوں میں غیر راجح اقوال کوترجیح بھی دی گئی ہے، بلکہ دیگر مذاہب کے اقوال کوبھی ترجیح دی گئی ہے۔ جن کا مذہب میں کوئی قائل نہیں ہے۔
ضعیف کتابیں: علامہ محمدہبتہ اﷲ بعلی الأشباہ کی شرح کے شروع میںلکھتے ہیں کہ:
’’فتویٰ کے تعلق سے ضعیف کتابیںیہ ہیں۔ کنزکی شرح ملامسکین 1 نقایہ کی شرح قہستانی 2 کیوں کہ ان دونوں کتابوں کے مصنفین کا حال معلوم نہیں، قنیہ کے مصنف 3 کی تمام کتابیں کیوںکہ وہ اپنی کتابوں میں ضعیف اقوال نقل کرتے ہیں،
علامہ حصکفی کی درمختار، علامہ عمربن نجیم 1 کی کنز کی شرح النہرالفائق، بخاری کے شارح علامہ عینی 2 کی کنز کی شرح رمزالحقائق۔ موخرا لذکر تینوں کتابیں مختصر ہونے کی وجہ سے مفتی بہ کتابوں میں شامل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ‘‘
شیخ صالح جینینی 3 فرما تے ہیں کہ:
’’مذکورہ کتابوں سے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے۔ اِلاّ یہ کہ منقول عنہ کا علم ہوجائے، یعنی ان کے مآخذ کا پتہ چل جائے۔ ‘‘
بعلی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے اسی طرح سناہے، اور وہ علمِ فقہ کے مشہورعلامہ تھے اور جو کچھ انہوں نے فر مایا ہے اس کی ذمہ داری انہیں پرہے (شرح اشباہ کی عبارت پوری ہوئی)
فائدہ: علامہ شامی ؒ نے ردالمحتار (۱/۵۲) میں فتویٰ کے لیے ناقابل کتابوں میں علامہ ابنِ نجیم مصری ؒ کی الأشباہ والنظائر کو بھی شامل کیا ہے، کیوںکہ اس کی عبارتیں بے حد مختصر ہیں، اس لیے شروح یا مأخذ سے رجوع کیے بغیر ان کا مطلب سمجھنے