ضعیف قول پر عمل اور فتویٰ: لیکن علامہ کے فتاویٰ میں یہ بھی ہے کہ امام سبکی ؒ 1 نے اپنے فتاویٰ میں کتاب الوقف میں فرمایا ہے کہ:
’’نفس الامر میں ضعیف وجہ کی پیروی کرنا اپنے ذاتی عمل کے تعلق سے جائز ہے، اور فتویٰ میں اور فیصلے میں جائز نہیں ہے، کیوں کہ علامہ ابن الصلاح نے اس کے عدمِ جواز پر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘
اور علامہ شرنبلالی ؒ نے اپنے رسالے العقد الفرید في جواز التقلید میں فرمایا ہے کہ: مذہبِ شافعی کا متقضی جیساکہ علامہ سبکی ؒ نے بیان کیا ہے فیصلے اور فتویٰ میں مرجوح قول پر عمل کا عدم جواز ہے، اور اپنے ذاتی عمل کا یہ حکم نہیں ہے، اور حنفیہ کا مذہب مرجوح قول پر عمل کا عدمِ جواز ہے، اپنی ذات کے لیے بھی، کیوں کہ مرجوح قول منسوخ ہوگیا ہے۔‘‘
شرنبلالی پر اعتراض: میں کہتا ہوں کہ عدمِ جواز کی یہ وجہ بیان کرناکہ مرجوح قول منسوخ ہوگیا ہے صرف اس صورت میں معقول ہے جب کسی مسئلے میں مجتہد کے دوقول ہوں، اور اس نے ایک قول سے رجوع کرلیا ہو، یا ایک قول کا دوسرے قول سے مؤخر ہونا معلوم ہو، ورنہ معقول نہیں۔
مثلاً: کسی مسئلے میں ایک قول امام یوسف ؒ کا ہے، اور دوسرا قول امام محمد ؒ کا تو اس میں نسخ کی کوئی صورت نہیں بنتی۔
جواب: لیکن علامہ شرنبلالی کی مرادیہ ہے کہ جب دوقولوں میں سے ایک قول کی تصحیح کی گئی ہو تو دوسرا قول بمنزلہ منسوخ ہوجائے گا (حقیقتاً منسوخ ہونا ان کی مراد نہیں ہے)، اور علامہ قاسم ؒ کی اس بات کا مطلب بھی یہی ہے جوگزرچکی ہے کہ ’’راجح قول کے مقابلے میں مرجوح قول کالعدم ہے۔‘‘
علامہ سبکی پر اعتراض: پھر وہ بات جوعلامہ سبکی ؒ نے ذکر کی ہے کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اپنے ذاتی عمل کے تعلق سے مرجوح قول پر عمل کرنا جائز ہے، یہ بات اس بات کے خلاف ہے جو علامہ قاسم ؒ کے حوالے سے گزر چکی ہے، اور علامہ قاسم ؒ کے قول جیسا قول ہم اس شرح کے آغاز میں ابنِ حجر ؒ کے فتویٰ کے حوالے سے بھی بیان کر چکے ہیں۔ انھوںنے اجماع نقل کیا ہے کہ آدمی جس قول پر بھی چاہے نہ تو فتویٰ دے سکتا ہے نہ عمل کر سکتا ہے۔
جواب: ہاں یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ عمل سے مراد قضا اور فیصلہ ہے، مگر یہ تاویل بہت بعید ہے، اور جواب دینے کی بہتر صورت یہ ہے کہ تشھی کی تعبیر سے جواب نکالا جائے، اور یہ کہا جائے کہ اجماع مطلق تخییر کی ممانعت پر ہے، یعنی آدمی مختلف اقوال میں سے جس وقت جس قول کو چاہے اختیار کرے، اور من مانی کرے، یہ ممنوع ہے، لیکن اگر کوئی