ہوگا، اور سابق قول یا اقوال کالعدم سمجھے جائیں گے۔
۲۔ اور اگر آخری قول معلوم نہ ہوسکے تو دیکھا جائے کہ کسی قول کے ساتھ کوئی ترجیحی اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ مثلاً کسی قول کو خود امام نے أرفق للناس، أوفق بالزمان یا أشبہ بالصواب کہا ہوتو اسی قول کو اختیار کیا جائے گا، اور وہی امام کا صحیح قول سمجھا جائے گا۔
۳۔ اور اگر کسی قول کے ساتھ ترجیحی اشارہ موجود نہ ہو تو صاحبِ معاملہ یعنی جن لوگوںکو فتویٰ دینے کے لیے یا عمل کر نے کے لیے کسی ایک قول کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے وہ تین قسم کیحضرات ہوسکتے ہیں۔ (۱) مجتہد فی المذہب (۲) محضفقیہ (مفتیانِ زمانہ) (۳) اور عام مسلمان۔ تینوں کے احکام درج ذیل ہیں:
الف۔ مجتہد فی المذہب اصولِ فقہ میں تعارضِ ادلہّ کی بحث میں جووجوہ ترجیح بیان کیے گئے ہیں ان میں سے کسی وجہ کے ذریعہ کسی ایک قول کو ترجیح دے گا، اور اگر کوئی وجہ ترجیح موجود نہ تو اپنے دل کی گواہی سے جس قول کوراجح سمجھے اس پر عمل کرے، اور اس پر فتویٰ دے۔
ب۔ اور محض فقیہ (اور عصرِ حاضر کے سب مفتی اسی درجے میں ہیں الاماشاء اﷲ) متاخرین کی ترجیحات کی پیروی کرے۔ یعنی متاخرین نے جس قول پر فتویٰ دیا ہے اس کو راجح سمجھے اور اس پر فتویٰ دے۔
ج۔ اور عام مسلمان اپنے زمانے کے اعلم واتقی مفتی کے فتویٰ کی پیروی کریں۔ وہ جس قول پر فتویٰ دے اس پر عمل کریں۔
اختلافِ اقوال اور اختلافِ روایات میں فرق: اور یہ بات جان لیں کہ دو روایتوں کا اختلاف دو قولوں کے اختلاف کی قبیل سے نہیں ہے۔ کیوں کہ دو قول تو مجتہد کی صراحت کی وجہ سے ہوتے ہیں، اور دو روایتوں کے اختلاف کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ الغرض دو قولوں کا اختلاف تومنقول عنہ کی طرف سے ہوتا ہے، ناقل کی طرف سے نہیں ہوتا، اور دو روایتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے (وہ ناقلین کی طرف سے ہوتا ہے ،امام کی طرف سے نہیں ہوتا)یہ بات محقق ابن امیر حاج حلبی نے التحریر کی شرح التقریرو التحبیر: ۳/۳۳۴ میں بیان فرمائی ہے۔
وضاحت: ایک مثال لیجیے: امام اعظم ؒ نے ایک وقت میں عورتوں کو قبرستان جانے کی اجازت دی، اور دوسرے وقت میں ممانعت فرمائی تو یہ اقوال کا اختلاف ہے، جو منقول عنہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر امام صاحب نے تو کسی مسئلے میں کوئی