وَلْیَخْشَ بَطْشَ رَبِّہِ یَوْمَ الْمَعَادْ
تومفتی پوری کوشش اور محنت سے غور کرے، اور چاہیے کہ وہ قیامت کے دن کی پروردگار کی پکڑ سے ڈرے۔
۳۹
فَلَیْسَ یَجْسُرُ عَلَی الْأَحْکَامْ
سِوَی شَقِيٍّ خَاسِرِ الْمَرَامْ
کیوں کہ احکامِ شرعیہ بیان کرنے پر دلیری نہیں کر تا۔ بدبخت، خائب و خاسر آدمی کے علاوہ۔
متقدمین سے روایت نہ ہو اور متاخرین میں اختلاف ہوتو کیا کیا جائے؟ الحاوي القدسي کے آخر میں ہے کہ جب کسی مسئلے میں امام صاحب سے کوئی روایت نہ پائی جائے تو امام ابویوسف ؒ کے ظاہرِ قول کو لیا جائے گا، پھر امام محمد کے ظاہرِ قول کو، پھر امام زفر اور حسن بن زیاد وغیرہ، امام صاحب کے تمام بڑے تلامذہ کے اقوال کو آخر تک درجہ بدرجہ لیا جائے گا۔
اور جب کسی واقعے میں ان حضرات سے کوئی صریح جواب مروی نہ ہو، اور اس مسئلے میں بعد کے مشائخ نے کلام کیا ہو، اور وہ سب حضرات کسی ایک بات پر متفق ہوں تو اس کو لیا جائے گا، اور اگر ان میں اختلاف ہو تو اکثر حضرات کے اس قول کو لیا جائے گا جس پر مشہور اکابر مثلاً ابو حفص کبیر، ابو جعفر ہندوانی 1 ابواللیث سمرقندی اور امام طحاوی وغیرہ نے اعتماد کیا ہو۔
متاخرین کا بھی کوئی قول نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اور اگر بعد کے مشایخ سے قطعاً کوئی صریح حکم مروی نہ ہو تو مفتی اس واقعے میں غور وفکر کرے، اور اپنی پوری طاقت خرچ کرے، تاکہ وہ کوئی ایسا حکم دریافت کرے جس کے ذریعے وہ اپنی ذمے داری سے عہدہ بر آہو سکے، اور اس مسئلے میں اٹکل سے گفتگو نہ کرے، اپنے منصب اور اس کی ذمے داری کا احساس