راجح (استحسان)کے مطابق عمل کامتعین ہونا اورمرجوح (قیاس) پر عمل نہ کرنا ہے۔ اور فخر الاسلام بزدوی ؒ کے کلام سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رجحان کے معنی اولیت کے ہیں، یہاں تک کہ مر جوح (قیاس ) پر بھی عمل جائز ہوگا۔
۵۔ ظاہرِ روایت پر فتویٰ دینا ضروری ہے: پانچواں قاعدہ وہ ہے جوالبحر الرائق کی کتاب القضا (۶/۲۷۰)میں ہے کہ جو اقوال ظاہرِ روایت سے خارج ہیں، وہ مرجوع عنہ ہیں، اور مرجوع عنہ قول مجتہد کا قول باقی نہیں رہتا، علما نے ایسا ہی ذکر کیا ہے۔ اور ہم پہلے أنفع الوسائل کے حوالے سے بیان کرآئے ہیں کہ مقلد قاضی ظاہر روایت کے مطابق ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ روایت شاذہ کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکتا۔ إلایہ کہ فقہا تصریح کریں کہ فتویٰ روایتِ شاذہ پر ہے۔ اور البحر کے باب قضاء الفوائت (۲/۸۲) میں ہے کہ جب کوئی مسئلہ ظاہرِ روایت میں مذکور نہ ہو اور دوسری روایت میں ثابت ہو تو اس کی طرف رجوع کرنا متعین ہے۔
۶۔ اختلافِ روایات کے وقت درایت(دلیل) کا لحاظ: چھٹا قاعدہ وہ ہے جو سدیدالدین کاشغری ؒ کی منیۃالمصلي کی شرح کبیری (ص: ۲۹۵) میں تعدیلِ ارکان کی بحث میں ذکر کیاگیاہے۔ شارح نے طمانیت، قومہ اور جلسہ کے بارے میں امام اعظم کی مختلف روایتیں ذکر کرنے کے بعد کہ وہ سنت ہیںیاواجب فرمایا ہے کہ :
’’اور آپ جان چکے ہیں کہ دلیل کامقتضا وجوب ہے، شیخ کمال الدین ابن الہمام نے ایسا ہی فرمایا ہے، اور جب درایت کے موافق روایت بھی ہوتو اس سے عدول مناسب نہیں ہے‘‘۔
درایت: اور لفظِ درایت (بے نقطہ دال سے ) بمعنی دلیل استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ حافظ الدین نسفی کی المستصفی میں ہے، اور اس کی تائید اس عبارت سے بھی ہوتی ہے جو الحاوي القدسي کے آخر میں ہے کہ:
جب کسی مسئلے میں امام ابوحنیفہ ؒ سے روایتیں مختلف ہوں تو ان میں سے جودلیل کے اعتبار سے قوی ہو اس کو لینا بہتر ہے (اس عبارت میں درایت کی جگہ حجت استعمال کیاگیا ہے، معلوم ہوا دونوں ایک ہیں)۔
۷۔ کفر کے فتویٰ میں احتیاط لازم ہے: ساتواں قاعدہ وہ ہے جو البحرالرائق (۵/۱۲۴) باب المرتد میں صدر شہید ابن