اور الحاوي القدسي 1 کے آخر میں ہے کہ جب امام اعظم ؒ کے کسی بھی شاگرد کا قول لیا جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ قول اختیار کر کے امام صاحب کے قول ہی پر عمل کیا۔ کیوںکہ امام صاحب کے تمام بڑے تلامذہ سے مثلاً امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام حسن بن زیاد ؒ سے یہ بات مروی ہے کہ ہم نے کسی مسئلے میں جو بھی قول کیا ہے وہ ہماری امام اعظم ؒ سے روایت ہے۔ اور ان حضرات نے اپنی اس بات پر موکد قسمیں کھائیں ہیں، پس اب فقہ حنفی میںنہ کسی کا کوئی جواب متحقق ہے، نہ مذہب، سب ہی امام اعظم ؒ کے اقوال ہیں، خواہ بلاواسطہ ہوں یا بالواسطہ، اور اقوال تلامذہ کی طرف صرف رائے میں توافق کی وجہ سے منسوب کیے گئے ہیں۔ 1
ایک شبہ: اگر کوئی کہے کہ جب مجتہد نے کسی قول سے رجوع کر لیا تو وہ اس کا قول ہی باقی نہیں رہا، کیوں کہ وہ حکم منسوخ کی طرح ہوگیا، جیساکہ آگے آئے گا۔ پس ایسی صورت میں تلامذہ نے امام صاحب ؒ کے قول کے بر خلاف جو کچھ کہاہے وہ امام صاحب کا مذہب نہیں ہوسکتا، بلکہ تلامذہ کے اقوال خود ان کے مذاہب ہوں گے۔ پھر ان کو امام صاحب کی طرف کیوں کر منسوب کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ حنفی صرف امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کرتاہے، اور اسی وجہ سے اس کو امام صاحب کی طرف منسوب کر کے حنفی کہاجاتاہے۔
جواب: یہ اشکال خود میرے ذہن میں آیا تھا، اور میں نے اس کا جواب درِمختار کے حاشیے ردالمحتار (۱/۵۰) میں دے دیا ہے کہ جب امام صاحب ؒ نے اپنے تلامذہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے اقوال میں سے جس کی ان کو دلیل مل جائے اختیار کر سکتے ہیں تو اب تلامذہ کے اقوال خود امام صاحب کے اقوال ہوگئے، کیوں کہ تلامذہ کے وہ اقوال ان قواعد پر مبنی ہیں جو خود امام صاحب ؒ نے ان کے لیے تجویز کیے ہیں۔ اس لیے امام صاحب کے وہ اقوال بالکلیہ مرجوع عنہ نہیں ہیں۔
صحیح حدیثیں بھی امام صاحب کے اقوال ہیں: اور اس کی نظیر وہ بات ہے جوعلامہ بیری ؒ نے شرح اشباہ کے شروع میں شارح ِوہبانیہ 2 کے
والد ماجد 1 اور علامہ ابن الہمام کے استاذ بڑے ابن الشحنہ 2 کی شرحِ ہدایہ سے نقل کی ہے کہ :
’’جب حدیث پایہ ثبوت کو پہنچ جائے، اور وہ مذہب کے خلاف ہوتو حدیث پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام صاحب کا مذہب ہوگا، اور حدیث پر عمل کر نے کی وجہ سے امام صاحب کا مقلد حنفیت سے نہیں نکلے گا، کیوں کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا یہ ارشاد ثابت ہے کہ: