اصحاب اور مشائخ میں فرق: اصحاب، صاحب کی جمع ہے، جس کے لغوی معنی ہیں ساتھی اور عرفی معنی ہیں استاذ اور شاگرد، اور شیخ سے مراد وہ عالمِ دین ہوتا ہے جو لوگوں کے نزدیک علم، فضیلت اور مرتبے کے لحاظ سے بڑا ہو، اس کی جمع اشیاخ وشیوخ اورمشیخۃ آتی ہے، اور جمع الجمع مشائخ ہے۔
اور اصطلاح میں اصحاب سے ائمہ ثلاثہ (امام اعظم اور صاحبین) مراد ہوتے ہیں، اور کبھی امام صاحب اور ان کے تمام بلاواسطہ تلامذہ مراد ہوتے ہیں، اور مشائخ سے وہ فقہائے متقدمین مراد ہوتے ہیں جنہوں نے امام اعظم کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ المشہور: إطلاق ’’أصحابنا‘‘ علی أئمتنا الثلاثۃ أبي حنیفۃ وصاحبیہ، کما ذکر في شرح الوھبانیۃ۔ وأما المشایخ ففي وقف النھر عن العلامۃ قاسم: أن المراد بھم في الاصطلاح: من لم یدرک الإ مام إلخ (ردالمحتار۳/۴۹۷)
متقدمین اور متاخرین کی تحدید: علامہ ذہبی ؒ 1 نے تیسری صدی کے ختم کو متقدمین اور متاخرین کے درمیان حد فاصل قرار دیا ہے۔ شامی ؒ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں:
فائدۃ: قال الذھبي: الحدّ الفاصل بین العلماء المتقدمین والمتأَخرین رأس القرن الثالث، وھوثلاث مأۃ، فالمتقدمون من قبلہ، والمتأخرون من بعدہ (رسائلِ ابنِ عابدین: ۱/۱۶۱)
یعنی تیسری صدی کے ختم تک جو علما گزرے ہیں وہ متقدمین کہلاتے ہیں، اور اس کے بعد والے متاخرین۔
دوسراقول: یہ ہے کہ متقدمین وہ ہیں جنہوں نے امام اعظم اور صاحبین کا زمانہ پایا ہے اور ان سے استفاہ کیا ہے، اور جنہوں نے ائمہ ثلاثہ کا زمانہ نہیں پایا وہ متاخرین ہیں۔
تیسراقول: یہ ہے کہ امام محمد ؒ تک متقدمین ہیں، اور ان کے بعد حافظ الدین بخاری ؒ 1 تک علمائے متاخرین ہیں (مبادیاتِ فقہ: ص: ۷۳)۔
سلف اور خلف سے مراد: اصطلاح میں امام اعظم سے امام محمد تک سلف اور امام محمد کے بعد شمس الائمہ حلوائی تک خلف کہلاتے ہیں (مبادیات فقہ: ص، ۷۴)۔ اب شرح عقود رسم المفتی کا تر جمہ شروع ہوتا ہے۔
اب تک اشعار کے ضمن میں جوتشریحات اور فوائد آئے ہیں وہ اضافے تھے۔
طبقات المسائل: یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہمارے ائمہ کے بیان کردہ مسائل کے تین درجے ہیں۔